آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا حکمنامہ جاری
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے آڈیو لیک کمیشن کو کام سے روک دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کمیشن کی کارروائی پر حکم امتناع جاری کر دیا اور قرار دیا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کی بطور کمیشن تعیناتی کے لیے چیف جسٹس کی اجازت ضروری ہے۔
const.p._14_2023 by A. Khaliq Butt on Scribd
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے حکمنامے میں لکھا ہے کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل مشکوک انداز میں کی گئی۔ 8 صفحات پر مشتعمل تحریری حکمنامہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ آپ کو سماعت کے لیے اس بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے، جس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی آڈیو لیکس کمیشن میں جو معاملہ زیر تحقیق ہے اس پر چیف جسٹس، کمیشن اور خاص طور پر اس کے چیئرمین کی تقرری کی منظوری نہ دیتے۔
یہ بھی پڑھیں:آڈیو لیکس کمیشن نے پیمرا کی تصدیق کے ساتھ 9 آڈیو ٹیپس کی ٹرانسکرپٹ جاری کر دیے
چیف جسٹس نے حکمنامے میں لکھا ہے کہ اس اعتراض کو اس بناء پر مسترد کر دیا گیا کہ کسی حاضر سروس جج کو کسی کمیشن کا رکن بنانے کے لیے چیف جسٹس کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ بینچ نے قرار دیا کہ بطور سپریم کورٹ جج کسی بھی دوسرے منصب پر کام کرنے کے لیے چیف جسٹس کی اجازت ضروری ہے۔
5 رکنی بینچ کے مطابق وفاقی حکومت نے یکطرفہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دوسرے ممبران کو بطور کمیشن مقرر کیا، اس طرح سے آئینی اصول کی خلاف ورزی کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
بنیچ کے مطابق کمیشن کے دوسرے ممبران کی تعیناتی کے لیے بھی ہائیکورٹ کی ججز کی منظوری ضرروی تھی۔ آڈیو لیک کمیشن کی کارروائی کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 209 جو ججز کے احتساب سے متعلق ایک آرٹیکل ہے اس کی تشریح پر بحث کے لیے نوٹس جاری کیا گیا ہے۔