جسٹس بندیال نے ایک شر میں سے خیر برآمد کر لیا ہے۔ شر میں سے خیر کی تلاش کرنے کی صلاحیت اللہ اپنے مقبول ترین بندوں کو عطا کرتا ہے۔ صوفیا اور صلحا جیسے اس کے برگزیدہ بندے جن کی زندگی کا مقصد ہی مخلوق خدا کی خدمت اور ان کی بھلائی ہوتا ہے۔
مولانا ظفر احمد انصاری گو سیاست دان تھے اور تحریک پاکستان میں قائد اعظم علیہ رحمہ کے بااعتماد ترین ساتھی۔ اللہ نے انہیں طویل زندگی عطا فرمائی اور انہوں نے 80 کی دہائی تک سیاست کے مرکزی دھارے میں رہتے ہوئے خیر ہی بانٹا۔ بھٹو دور میں تحریک ختم نبوت اور 1977ء کی تحریک جیسے بحرانوں میں وہ اس خوبی کے ساتھ بروئے کار آئے کہ اندھیرے میں روشنی کی کرنیں جگمگا اٹھیں۔ جنرل ضیا انتخابات سے خوفزدہ تھے۔ مولانا انصاری بیچ میں نہ آتے تو شاید 1985ء کے انتخابات بھی نہ ہو پاتے۔ انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کا خاکہ پیش کر کے جنرل ضیا کو یہ کڑوا گھونٹ بھرنے پر آسانی سے آمادہ کیا پھر اس کے بعد راستے کھلتے چلے گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ شر میں سے خیر برآمد کرنے کی جیسی صلاحیت وہ رکھتے ہیں ، کوئی نہیں رکھتا۔ مولانا انصاری کے بعد لگتا ہے کہ یہ نایاب صلاحیت ہمارے بندیال صاحب کو ودیعت ہوئی ہے۔
بندیال صاحب کو خوشی ہے کہ 9 مئی کے شر کی وجہ سے لوگوں کی توجہ بھٹک گئی ہے اور اب وہ یا ان کی عدالت تنقید کا ویسے ہدف نہیں رہی جیسے کچھ دن پہلے تھی۔ بندیال صاحب کی یہ مسرت اپنی جگہ اہم ہے لیکن سنجیدہ اہل فکر کی پریشانی کی نوعیت مختلف ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمٰن ایک روشن خیال دانش ور ہیں۔ شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے جو مناظر ہم آپ دیکھ رہے ہیں کچھ ایسے مناظر ہی انہوں نے بھی دیکھے اور ایک نتیجہ اخذ کیا۔ نتیجہ تو خیر ایسا ہے جسے لوگ اس لیے بھی زبان پر لانے سے جھجھک رہے ہیں کہ کہیں اپنی زبان ہی کالی نہ ہو جائے۔ البتہ برادر رفعت سعید کی بات دوسری ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر بڑا دلچسپ اور ذو معنی تبصرہ کیا ہے کہ عمران خان کی ایک فاش غلطی پورے ملک کو فوجی بنا دیا۔ رفعت بے تکلف بات کرنے والے کھلے ڈلہے صحافی ہیں جیسا انہوں نے سوچا بے دھڑک کہہ ڈالا۔ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر عزیز محتاط آدمی ہیں۔ اسلام آباد کے بعض علاقوں سے وہ گزرے اور انہوں نے جو مناظر دیکھے، انہیں دیکھ کر کہا:
‘ شاہراہ دستور پر لگی قد آور تصاویر تو مستقبل کی کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔’
یہ کہانی کیا ہو سکتی ہے؟ اسے زبان پر لائیں یا نہ لائیں، کون پاکستانی ہو گا جو ان خدشات اور ان کے مضمرات کو سمجھ نہ سکے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو قومی ذرائع ابلاغ پر بھی اپنے انداز میں زیر بحث ہے۔ اہل دانش کا خیال ہے کہ اس دن جو کچھ ہوا اور اس کے ردعمل میں ریاست جس طرح متحرک ہوئی، ان کے نتیجے میں جمہوریت کا سفر کچھ مزید طویل ہو گیا ہے۔ یہ پریشانی اس وجہ سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ عمران خان کے 4 برس اور انہیں لانے کے لیے اختیار کیے گئے طور طریقوں کے باوجود آئین اور جمہوریت کی حکمرانی کے ضمن قوم ایک وسیع تر اتفاق رائے پر جمع تھی اور سیاسی جماعتیں میثاق جمہوریت کی بنیاد پر بالغ نظری سے اپنا کردار ادا کرتی آ رہی تھیں کہ بیچ میں 9 مئی آ گیا۔ یوں خطرہ محسوس ہوا کہ ہم ایک دائرے کا چکر کاٹنے کے بعد ایک بار پھر وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں، جہاں سفر کے آغاز کے لیے نئی کوششوں اور نئے جتن کرنے کی ضرورت ہو گی۔
جیسے بیان کیا گیا، اگر صورت حال بالکل اسی طرح ہو تو سچی بات ہے کہ اس پر صرف قوم کو نہیں بلکہ اداروں کو بھی پریشان ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ 2014 سے 2018 اور اس کے بعد کے چند برسوں کے دوران میں جو خرابی پیدا ہوئی، اداروں نے اس کی اصلاح کے لیے جان مار کر کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف یہ کہ سیاست سے لاتعلقی کی منزل پر پہنچے بلکہ اپنے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے انہوں نے آئین کو بھی شامل کر دیا۔ یہ ایک بہت بڑی جست تھی جس سے واپسی ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑا قومی نقصان ہو گا لیکن اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ صورت حال اس سے کافی مختلف ہے۔
بعض سیاسی مظاہر بوتل کے جن کی طرح ہوتے ہیں۔ طاقت ور قوتیں جنہیں موم کی ناک سمجھ کر پالتی پوستی ہیں اور پھر کسی مناسب وقت پر بوتل کا ڈھکن کھول دیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جن کی پرورش اور تربیت ہی درست نہیں ہوئی۔ ماضی قریب میں اس قسم کا تجربہ ایم کیو ایم کی صورت میں ہوا تھا۔ خواہش تو یہی تھی کہ مارشل لا کی مخالفت کرنے والی قوتوں سے نمٹ کر اس سے جان آسانی کے ساتھ چھڑا لی جائے گی لیکن وہ تو ایسا جن تھا جس نے پورے صوبے میں لسانی منافرت کو ہوا دے کر خون ریزی کو عام کر دیا، اس کے بعد اپنے خالقوں کو بھی آنکھیں دکھانے لگی، یوں اس سے نمٹنے میں 30 برس لگ گئے۔
ایم کیو ایم کے بعد دوسرا ہول ناک تجربہ پی ٹی آئی کا ثابت ہوا۔ الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی طرح اس کے لیے بھی ریاست کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اس جماعت کے کمیونیکیشن سسٹم اور نظام تربیت پر جب تحقیق ہو گی تو صحیح معنوں میں معلوم ہو سکے گا کہ اس جماعت کا برین واشنگ سسٹم کیا تھا جس کے ذریعے لوگوں کو کامن سینس سے محروم کر کے کاٹھ کا الو بنا دیا جاتا اور سکھایا جاتا کہ بانی پاکستان کے زیادہ بڑا لیڈر اس جماعت کا سربراہ ہے۔ بانی پاکستان نہ اس کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کے فہم کا۔ اس شخص کی حرمت ریاست سمیت تمام مقدسات سے زیادہ مقدس ہے لہٰذا جو کوئی بھی اس کے تقدس کو چیلنج کرے، اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ 9 مئی کا سانحہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔
اس گروہ کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کے خالقوں کو یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ یہ لوگ نہ تو کسی فہم و فراست کے مالک ہیں اور نہ کوئی ایسی مثبت صلاحیت رکھتے ہیں جسے بروئے کار لا کر وہ اس ملک کو کچھ دے سکیں۔ اس کے ہاتھوں معیشت کی تباہی کے بعد یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ یہ لوگ پاکستان کے آئین اور دفاع کے بارے میں کوئی ایسا ایجنڈا ضرور رکھتے ہیں جو قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں۔ اسی سبب سے حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصت کیا۔ اقتدار سے رخصتی کے بعد اس کے تخریبی رجحانات مزید کھل کر سامنے آئے۔ یوں یہ سمجھ میں آیا کہ عمومی بلکہ فطری طریقوں کے ذریعے اس گروہ سے نجات بھی ممکن نہ ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ جس طریقے سے اسے تخلیق کیا گیا، اسی طریقے سے اسے عدم کی راہ پر بھی گامزن کر کے کاروبار مملکت ان لوگوں کے سپرد کر دیا جائے، قوم جن پر اعتماد کرے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی طرف لوٹ جایا جائے۔ 9 مئی کے اندوہ ناک واقعات کے باوجود میری اطلاع کے مطابق ابھی تک فیصلہ یہی ہے اور یہی رہے گا۔
9 مئی کے بعد کچھ دیگر معاملات کے بارے میں کچھ تبدیلی ضرور رونما ہوئی ہے ۔ پی ٹی آئی کے غیر سیاسی طرز عمل اور ریاستی اور دفاعی اداروں پر حملے نے کچھ اور چیزیں بھی واضح کی ہیں۔ ایک تو یہ احساس قوی ہوا کہ یہ جماعت ٹرمپ کی جماعت کی طرح تشدد پر یقین رکھتی ہے اور اس کے نزدیک اپنے اقتدار کے مقابلے میں کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس روز ہونے والی دہشت گردی نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ اس کی ریاست مخالف سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی اقدامات ناگزیر ہیں۔ ان اقدامات کی ضرورت خاص طور پر اس لیے بھی ہے کہ موجودہ نظام انصاف کے تحت مجرموں کو سزا دینا ممکن نہیں رہا۔ یہ قریب قریب ایسی ہی صورت حال تھی جیسی امریکا میں کیپیٹل ہل پر چڑھائی کی صورت میں سامنے آئی یا برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے خلاف فسادات کی صورت میں۔ ان دونوں معاشروں یہ فسادات اتنے بڑے پیمانے پر ہوئے تھے کہ ضرورت محسوس ہوئی کہ مجرموں سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتیں تشکیل دی جائیں پھر ایسا ہی ہوا۔ اس قسم کی غیر معمولی صورت حال میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ 9 مئی کے بعض مجرموں سے نمٹنے کے لیے یہاں اگر فوجی عدالتوں کا سہارا لیا جارہا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے اور یہ صرف پاکستان میں نہیں ہو رہا، دنیا بھر میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔ بندیال صاحب کو 9 مئی کے فسادات کی وجہ سے خود یا عدالت پر عوامی تنقید کی کمی یا خاتمے کی صورت میں خیر دکھائی دیا تھا لیکن خیر کا حقیقی پہلو یہ ہے کہ ریاست بہ حیثیت مجموعی ملک کو غیر مستحکم کرنے والے عوامل کے خاتمے پر یکسو ہو گئی ہے اور یہی اصل خیر ہے۔