آج کے ڈیجیٹل دور میں، جعلی خبریں اور پولرائزیشن کے وسیع اثرات عام آدمی کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن گئے ہیان۔
بطورصحافی میں سچائی کو سامنے لانے کے لیے پرعزم ہوں لیکن مجھے اس میں جس مشکل کا سامنا ہے وہ عوام تک درست اور غیر جانبدار معلومات کی فراہمی ہے جو روز بروز ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہوتا جا رہا ہے۔ جعلی خبروں اور پولرائزیشن سے صحافت کی بنیادوں کو خطرہ ہے، لیکن میں پختہ یقین رکھتی ہوں کہ غیر جانبداری، دیانتداری، اور اخلاقی رپورٹنگ کے ذریعے ہم اس گدلے پانی سے نکل سکتے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ جعلی خبروں یعنی فیک نیوز کا تصور نیا نہیں ہے لیکن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے اس چیلنج کو دگنا کر دیا ہے۔ جعلی خبریں میڈیا کے ہر شعبے میں تیزی سے گھس گئی ہیں، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں اور عوامی گفتگو میں دراندازی کر رہی ہیں۔ ہمارا نیوز ڈیسک اور اس کا ایڈیٹر بھی اس سے متاثر ہیں کیونکہ ہم سب سوشل میڈیا کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں۔-
حقائق کے طور پر پیش کی گئی غلط معلومات جو کہ عموما، مستند ذرائع سے ملتی ہیں، صحافیوں اور ان کے سامعین کے درمیان اعتماد کو ختم کرنے یا کم کرنے کا اہم ذریعہ ہیں، جس سےہمارے مقدس پیشے کی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ ایک صحافی کے طور پر، مجھے سچائی سامنے لانے کے لیے غلط معلومات کے سمندر میں سے گزرنے کی جدوجہد کا روزانہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اکثر ذرائع کی تصدیق اور حقائق کی جانچ کے دعووں میں گھنٹوں صرف ہو جاتے ہیں۔ اس وقت تک خبر، خبر نہیں رہتی۔ جعلی خبروں کے خلاف جنگ میں مسلسل تحقیق، چوکسی، اور سچ پرکھنے کے لیے غیر متزلزل لگن کی ضرورت ہے۔ لیکن۔۔۔
ہمارے ہاں تحقیقاتی صحافت کیسے ممکن ہے جب معلومات ہر حکومت یا عہدے دار کی پسند کے معیار کے مطابق تبدیل ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کوئی بھی بےخبر نہیں۔ معاشرہ، خانہ جنگی کی جانب تیزی سے گامزن ہے، میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جو “ففتھ جنریشن وارفیئر” سے بھی بڑا ہے۔ بحیثت میڈیا پرسن، یہ تصور میرے لیے کبھی پرکشش نہیں رہا۔ چلتے چلتے یہ بھی بتادوں کہ’ففتھ جنریشن وارفیئر’ کی اصطلاح پہلی بار 2003 میں رابرٹ اسٹیل نے پیش کی تھی- اگلے ہی سال، لِنڈ نامی اسکالر نے اس تصور یا نظریہ پر تنقید کی اور اس کی دلیل میں کہا کہ 4th جنریشن کو بھی مکمل طور پر عملی شکل دینا باقی ہے۔ پھر2008 میں، یہ اصطلاح ٹیری ٹیرف نے استعمال کی ، جس نے 2003 کے خطوط کو ایک ممکنہ مثال کے طور پر پیش اور کہا کہ وہ مکمل طور پر اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ آیا یہ پانچویں نسل یعنی ففتھ جنریشن وار فئیرہے یا نہیں- ساتھ ساتھ انہوں نی دعویٰ کیا کہ “ہو سکتا ہے کہ ہم اسے پہچان نہ سکیں” ٹیرف نے اپنی دلیل میں کہا کہ ففتھ جنریشن جنگی صورتحال ” بہت زیادہ بااختیار افراد” کو “دہشت گردی” یا طاقت کا استعمال کے ذریعے سیاسی بیانات دینے کی اجازت دیتی ہے، کیونکہ ان کے پاس اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے سیاسی طاقت کی کمی ہوتی ہے۔-
مجھے لگتا ہے کہ یہ نظریہ حقیقت سے مختلف ہے کیونکہ لوگ، تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اپنے بیانیے کی خرید و فروخت کر رہی ہیں اور ڈیجیٹل دور میں بے روزگار نوجوان نسل ان کی خریدار ہیں۔
اس آن لائن اور آف لائن پولرائزیشن نے ہر صحافی کو درپیش چیلنجوں میں کئی سو گنااضافہ کر دیاہے۔اسی بھاگ دوڑ میں رپورٹنگ کرنے والے رپورٹرز کو عام لوگوں یا ادارے سے دشمنی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو اپنے نظریات اور بیانیہ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
ایک صحافی کے طور پر، میں متوازن نقطہ نظر پیش کرنے اور اہم معاملات کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ تاہم حقائق پیش کرنے پر لوگوں کی جانب سے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنے متعین نظریات کو پیش کرنے والے نقطہ نظر سے ہٹ کر بات چیت پر تیار نہیں ہیں۔ پولرائزیشن کے اس فرق کو پر کرنے کے لیے بات چیت کو فروغ دینے اور اعتماد پیدا کرنے کی کی ضرورت ہے۔
تمام مشکلات کے باوجود صحافی معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ مصنفین، اسکالرز اور میڈیا پرسنز خاص طور پر صحافی سچائی کے محافظ، معلومات کے نگہبان اور شفافیت کے داعی ہیں۔
ہمارا فرض درست، غیر جانبدار اور اچھی طرح سے تحقیق شدہ مواد فراہم کرنا ہے جو افراد کو باخبررہنے اوردرست فیصلے کرنے کا اختیار دے۔ یعنی جعلی خبروں اور پولرائزیشن کے دورمیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بلند آواز میں سخت سوالات پوچھیں، اور تعصب یا تحریف کے بغیر حقائق کو پیش کریں۔
صحافی، صحافتی معیارات اور اقدارکے سامنے جوابدہ ہیں- فیک نیوزاور پولرائزیشن کے نقصان دہ اثرات کا مقابلہ اورسچ کو عوام تک پہنچانے کی تمام ذمہ داریاں ہمارے ہی کندھوں پر عائد ہوتی ہیں۔
آخری میں ان سب باتوں کا مقصد، ملکی و ذاتی سالمیت، تصدیق اور معروضیت کے اصولوں کا حصول،اور سیاسی، مذہبی نظریہ سے بالاتر ہو کر، اجتماعی طور پر جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو کم کرنا ہے- ملک میں جاری تمام جوڑ توڑ میں ہمیں صحافت کے روشن مستقبل جمہوریت اور حقائق کا فروغ سب سے بالا تر رکھنا ہے۔ کسی ذاتی، شخصی اور اداراتی تعاقب سے ہٹ کر۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔