تحریکِ انصاف کی صفِ اوّل میں ایک ہی شخص کھڑا ہے۔اس کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ جہاں اور جب بھی کھڑا ہوا ،تنہا ہی کھڑا ہوا۔
صفِ دوم میں البتہ بہت لوگ تھے جو اَب خالی ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں کی صورتِ حال جیسی ہے، اس کا نقشہ 19ویں صدی کے شاعر انشا اللہ خاں انشا نے کھینچا ہے:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
میرے لیے یہ استہزا کا نہیں، فکر اور تشویش کا مقام ہے۔ اس عبرت سرا میں کچھ بے مقصد نہیں۔ یہ ایک جہانِ معانی ہے، اگر کوئی سوچے۔ لوگ حسبِ ذوق، واقعاتِ عالم سے کچھ نہ کچھ اخذ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اس میں سبق ہے، سیاسی جماعتوں کے لیے۔ تحریکِ انصاف کا مضبوط دکھائی دیتا قلعہ، کیوں ریت کی دیوار ثابت ہوا اور تیز ہوا کا ایک تھپیڑا بھی برداشت نہ سکا؟ ایک سوال ا ور بھی ہے؟ ایک سیاسی جماعت، کیا اس سلوک کی سزاوار ہوتی ہے کہ جبر سے کبھی لوگوں کو شامل کرایا اور کبھی نکلوایا جائے؟ دوسرے سوال کا جواب،ہم پہلے تلاش کرتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک سوال، اس سوال سے بھی مقدم ہے۔ کیا تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے؟ پہلے اس کا جواب واجب ہے۔ وراثت میں حصہ طےکرنے سے پہلے، وارث کی جنس کا تعین ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی فیصلہ ہو سکے گا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ یہ لوگ اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ حکومت میں شامل بعض افراد بھی یہی کہتے سنائی دیتے ہیں۔ اس پر پوچھا جاتا ہے کہ تحریکِ انصاف اگر سیاسی جماعت نہیں تو پھر کیا ہے؟ اس کا واضح جواب کسی کے پاس نہیں۔ اشاروں میں جو کہا گیا کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تحریکِ انصاف ایک دہشت گرد گروہ ہے۔ مثال کے طور پر جب مذاکرات کی بات ہوئی تو نوازشریف صاحب نے کہا: ’مذاکرات سیاست دانوں سے ہوتے ہیں،دہشت گردوں سے نہیں‘۔
یہ ایک انتہا کے مقابلے میں دوسری انتہا ہے۔ تحریکِ انصاف اصلاً اسی طرح کی سیاسی جماعت ہے جس طرح کی جماعتیں ہمارے ہاں پائی جا تی ہیں۔ یہ کم و بیش 10 برس ایک صوبے میں اور 4 سال مرکز میں حکمران رہی۔ یہ اپنی ہیئت اور کارکردگی میں دیگر جماعتوں جیسی ہی تھی۔ کارکردگی میں تقابل کیا جا سکتا ہے اور اسے کم تر یا بہتر قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن اس کارکردگی سے اس کی جنس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ بہرحال ایک سیاسی جماعت ہی قرار پائے گی۔
ایک امتیاز البتہ ایسا ہے جو تحریکِ انصاف کو دیگر جماعتوں سے ممتاز کرتا ہے: تحریکِ انصاف کی عمارت ایک کلٹ کے گرد تعمیر کی گئی ہے۔ عمران خان صاحب ایک کلٹ لیڈر ہیں۔ انہوں نے اپنے گرد نوجوانوں کا ایک حصار قائم کیا جو ان کے شخصی سحر میں مبتلا ہیں۔
یہ سحر اس ’دیوتا‘ کا ہے جسے کچھ لوگوں نے مہارت کے ساتھ تراشا۔ میڈیا کی مدد سے اس کے خد وخال میں وہ رنگ بھر دیے کہ نئی نسل اس کی چکا چوند میں کھو گئی۔ اس پر مستزاد وہ ہیجان تھا جو خان صاحب نے پیدا کیا اور اس نسل کو ایک لمحے کے لیے بھی اس سے نکلنے نہیں دیا۔
دیگر سیاسی جماعتوں میں کچھ ایسی ہیں جو شخصیات کے گرد گھومتی ہیں لیکن ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی جماعت ایسی نہیں تھی جس کے وابستگان اپنے لیڈر کو معصوم، منزہ عن الخطا، واجب الاتباع اور معیارِ حق سمجھتے ہوں۔
نون لیگ، نوا شریف صاحب کے چاہنے والوں کی جماعت ہے لیکن کوئی ایک نون لیگی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس کے خیال میں نوازشریف کسی معصوم ہستی کا نام ہے جس پر ایمان لاناخدا کا حکم ہے۔ اس امتیاز کے باعث، تحریکِ انصاف مروجہ معنوں میں سیاسی جماعت نہیں رہی۔ اس کلٹ سے اب کوئی کام لیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ 9 مئی کو ایک کام لیا گیا جس نے بتا دیا کہ یہ سیاسی کارکن نہیں، کچھ اور ہیں۔ اس کی بنیاد پر یہ لوگ کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں۔ اس لیے اس کے کارکنوں کے وہ حقوق ثابت نہیں جو ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو حاصل ہوتے ہیں۔
مجھے اس تجزیے سے جزوی اختلاف ہے۔ میرا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کا ایک مؤثر حصہ کلٹ ہے اور اس سے وابستہ لوگ سیاسی کارکن کے تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ تاہم ان کے علاوہ عوام کا ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو تحریکِ انصاف کو ایک سیاسی جماعت سمجھتا اور عمران خان کو ایک سیاسی راہنما مانتا ہے۔ یہ طبقہ تعداد میں کم نہیں ہے۔ یہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سیاسی حقوق کا احترام ہو۔ لہٰذا تحریکِ انصاف کے ساتھ ایک دہشت گرد گروہ کا معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت کے ہر عہدیدار کو دہشت گرد سمجھنا اور اسے گرفتار کرنا یا صفِ دوم کے ہر راہنما کو کلٹ میں شمار کرنا درست رویہ نہیں۔
درست حکمتِ عملی یہ ہوگی کہ ایک کلٹ کے زیرِ اثر جو لوگ مجرمانہ کارروائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ریاست کے قانون کے مطابق جزا و سزا کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ انہیں موقع دیا جائے اور ان کی نفسیاتی صحت کا اہتمام کیا جائے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ سیاسی راہنما کیا ہوتا ہے اور کلٹ کیا ہے؟ ابلاغی صلاحیت سے کلٹ بن سکتا ہے توٹوٹ بھی سکتا ہے۔ زیادہ توجہ اس پر دینی چاہیے۔اس کے علاوہ جو لوگ ہیں انہیں موقع دیا جائے کہ وہ آزادی کے ساتھ سیاسی عمل میں شریک ہوں۔
عمران خان صاحب پر اگر کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو قانون کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔ وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے۔ لہٰذا ان کو بھی موقع دیا جائے کہ وہ قانون کا سامنا کریں۔
تحریکِ انصاف کی صفِ دوم جس سرعت کے ساتھ خالی ہو رہی ہے، وہ اس وقت استہزا کا موضوع ہے۔ بازیچہِ اطفال۔ میرا خیال ہے اس کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھا جائے۔ یہ انخلا اگر عبرت کا باعث ہے تو اس کے ساتھ سیاسی نظام کے کھوکھلے پن کو بھی نمایاں کر رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ابھی تک کچھ نہیں بدلا۔کل اگر جوق در جوق لوگوں کو ایک جماعت میں شامل کیا جا رہا تھا تو آج گروہ در گروہ نکالا بھی جا رہا ہے۔ جمہوریت کو اگر زندہ رہنا ہے تو سیاسی عمل کی باگ سیاسی ہاتھوں ہی میں ہو نی چاہیے۔