باکسنگ کے سابق ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپیئن محمد علی آج ہی کے دن 3 جون 2016 کو 74 برس کی عمر میں امریکا میں انتقال کر گئے تھے۔ محمد علی کے پرستار ان کی 7ویں برسی پر انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
محمد علی کا نام دنیائے باکسنگ میں اس لیے بھی امر رہے گا کہ وہ 3 بار ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپیئن رہے۔ وہ پہلی مرتبہ 1964 میں باکسنگ کے عالمی چیمپیئن بنے پھر انہوں نے یہ اعزاز 1974 میں جیتا اور پھر 1978 میں بھی یہ اعزاز حاصل کیا۔ محمدعلی نے اپنے 21 برس پر محیط باکسنگ کیریئر میں 61 مقابلوں میں سے 56 جیتے 5 میں شکست ہوئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 56 مقابلوں میں سے 37 ناک آؤٹ مرحلے پر جیتے گئے تھے۔
کلے سینئر کی نسبت کلے جونیئر کہلائے!
محمد علی امریکی ریاست کنٹکي کے شہر لوئسویل میں 17 جنوری 1942 میں پیدا ہوئے اور اپنے والد کیسیئس مارسیلس کلے سینئر کے نام پر کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر کہلائے۔ محمد علی (کیسیئس کلے) نے 12 سال کی عمر سے ہی ایک مقامی جمنازیم میں باکسنگ کرنی شروع کر دی۔ 6 فٹ 3 انچ (1.91 میٹر) قد کے حامل محمد علی نے 29 اکتوبر 1960ء کو آبائی قصبے لوئسویل میں پہلا مقابلہ جیتا۔ 1960ء سے 1963ء تک نوجوان محمد علی (کیسیئس) نے 19 مقابلے جیتے اور ایک میں بھی شکست نہیں کھائی۔ ان مقابلوں میں سے 15 میں اس نے مدمقابل کو ناک آؤٹ کیا۔
روم اولمپِک میں جیتا سونے کا تمغا دریائے اوہائیو میں پھینک دیا
باکسنگ میں ان کا کیریئر ایک شوقیہ کھلاڑی کی حیثیت سے کامیاب رہا لیکن ان کو کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب 1960ء میں روم اولمپِک میں انہوں نے سونے کا تمغا جیتا۔ تمغا جیتنے کے بعد محمد علی اپنے شہر واپس آئے تو نسلی امتیاز کا شکار ہو گئے۔ انہیں ایک ریستوران میں اس لیے نوکری نہ مل سکی کیونکہ وہ سیاہ فام تھے، اس واقعے سے دلبرداشتہ ہو کر انہوں نے اپنا سونے کا تمغا دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔ نسلی امتیاز کے واقعات کے باوجود ان کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ اکھاڑے (رِنگ) میں محمد علی(کیسیئس کلے) کا کردار غیر معمولی رہا۔ وہ اپنے مخالفین کو کھلا چیلینج دیتے اور مقابلے جیتتے رہے۔ پرستاروں نے انہیں ہیرو کی طرح دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
’کیسیئس کلے‘ ایک غلامانہ نام تھا: محمد علی
فروری 1964ء میں محمد علی (کیسیئس کلے) نے باکسنگ میں اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو کھلا چیلنج دیا اور انہیں ایک مقابلے کے چھٹے راؤنڈ میں شکست دی۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل 7 مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز مکے بازوں کو زیر کیا۔ اس فتح کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرکے اپنا نام محمد علی رکھ لیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ کیسیئس کلے ایک غلامانہ نام تھا۔
جو فریزیئر بمقابلہ محمد علی: صدی کی بہترین فائٹ
امریکا، ویت نام جنگ کے دوران محمد علی نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں انہیں ان کے اعزازات سے محروم کرکے 5 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کے پیش نظر انہیں سزا سے مستثنٰی قرار دیا۔ محمد علی دوبارہ میدان میں اترے تو ان کی باکسنگ میں وہ کشش نہیں تھی اور جو فریزیئر نے انہیں شکست دیدی لیکن 2 سال کے بعد انہوں نے بدلہ چکا دیا تھا۔ 8 مارچ 1971 کو جو فریزیئر اور محمد علی کا مقابلہ مکے بازی کی تاریخ کے عظیم ترین مقابلوں میں شمار ہوتا ہے اور صدی کی بہترین لڑائی (فائٹ) کے نام سے مشہور ہے۔
جو فریزیئر سے دوبارہ مقابلہ: 14ویں راؤنڈ کے بعد فتح حاصل کی
اکتوبر 1974ء میں محمد علی نے جارج فورمین کو شکست دیکر ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا وقار اور شہرت حاصل کرلی۔ اس وقت محمد علی کی عمر صرف 32 برس تھی اور وہ اس اعزاز کو دوبارہ جیتنے والے دوسرے شخص تھے۔ 1975ء میں فلپائن میں محمد علی کا جو فریزیئر سے دوبارہ مقابلہ ہوا، 14ویں راؤنڈ کے بعد محمد علی نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد فتح حاصل کی اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔
اسپِنکس کو شکست دیکر تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی نے تیسری بار عالمی اعزاز جیتا
فروری 1978ء میں علی کو زبردست دھچکا لگا جب وہ باکسر لیون اسپِنکس سے ہار گئے جو ان سے 12 برس چھوٹا تھا۔ 8 ماہ بعد نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا اور کروڑوں لوگوں نے اس مقابلے کو دیکھا، اس بار محمد علی نے اسپِنکس کو شکست دی اور تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی نے تیسری بار عالمی اعزاز جیتا تھا۔ اس وقت محمد علی کی عمر 36 برس تھی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد سونے کا تمغہ کیسے اور کیوں ملا؟
محمد علی نے 40 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ 1980ء ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔ ڈاکٹروں نے بھی انہیں ’رعشہ‘ کے مرض میں مبتلا پایا تھا، ڈاکٹرز کے مطابق سر پر لگنے والے مکوں کی وجہ سے بھی اس مرض کے لاحق ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
1996ء کے اٹلانٹا اولمپکس کی مشعل اٹھانے کا اعزاز بھی محمد علی کو ملا، اس وقت دنیا بھر کی توجہ ان کی صحت پر مرکوز تھی۔ خوش گوار بات یہ تھی کہ اس موقع پر انہیں سونے کا تمغا بھی دیا گیا جو اس تمغے کے بدلے میں تھا جو انہوں نے دلبرداشتہ ہو کر دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔
’سپورٹس مین آف دا سنچری‘ کے خطاب سے نوازا گیا
باکسنگ کے میدان میں شاندار خدمات پر برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے ناظرین نے محمد علی کو ’صدی کی سب سے عظیم کھلاڑی شخصیت‘ قرار دیا تھا جبکہ امریکی رسالے سپورٹس السٹریٹڈ نے ’سپورٹس مین آف دا سنچری‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔
باکسرز، نسل پرستی اور قومیت کو شکست دیکر نام امر کر لیا
رعشے کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انہوں نے اکھاڑا (رِنگ) تو چھوڑ دیا تھا تاہم فلاحی کاموں کو نہیں چھوڑا، اپنے آبائی قصبے لوئسویل میں 6 منزلہ محمد علی ویلفئیر سینٹر بھی قائم کیا تھا۔ محمد علی نے مخالف باکسرز ہی کو چِت نہیں کیا بلکہ نسل پرستی اور قومیت کو بھی شکست دی اور اپنا نام امر کر لیا تھا۔
ازدواجی زندگی اور پسماندگان
محمد علی نے زندگی میں 4 شادیاں کیں، ان کی 7 بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹیوں میں حنا، لیلیٰ، مریم، رشیدہ، جمیلہ، میا، خالیہ جبکہ 2 بیٹے اسعد علی اور محمد علی جونیئر ہیں۔ سانس لینے میں تکلیف کے باعث انہیں 2 جون 2016ء کو اسپتال میں داخل کروایا گیا تاہم اگلے روز ان کی حالت مزید بگڑ گئی اور وہ 3 جون 2016 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
سوانح حیات: ’عظیم ترین‘ میری اپنی کہانی
’دی گریٹ: مائی اون اسٹوری‘ 1975 میں شائع ہونے والی محمد علی کی سوانح حیات ہے۔ محمد علی کی کتاب رچرڈ ڈرہم کے تعاون سے لکھی گئی ہے اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار ٹونی موریسن نے اس کی تدوین کی تھی۔ اس کتاب میں محمدعلی نے اکھاڑے (رِنگ) کے اندر اور باہر ہونے والی لڑائیوں (فائٹس) کی پس پردہ کہانیاں اور ذاتی زندگی کی ان کہی باتیں بھی کہی ہیں۔ محمد علی کی سوانح حیات ایک عظیم کھلاڑی کے کیرئیر کی کثیر الجہتی تصویر ہے۔
ایک بار محمد علی سے پوچھا گیا تھا کہ ’وہ کس طرح یاد رکھے جانا چاہیں گے‘ تو انہوں نے کہا تھا ’ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے کبھی اپنے لوگوں کا سودا نہیں کیا، اور اگر یہ زیادہ ہے تو پھر ایک اچھے باکسر کے طور پر، مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر آپ میری خوبصورتی کا ذکر نہیں کریں گے۔‘