ایک بزرگ ایرانی عالم نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کی 75,000 مساجد میں سے قریباً 50,000 مساجد بند ہوچکی ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی عبادت گاہوں میں لوگوں کی حاضری کس قدر کم ہوچکی ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے رابطہ کار برائے مدارس محمد ابوالغاسم دولابی نے عبادت کرنے والوں کی تعداد کم ہونے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعدادوشمار ریاست کے لیے پریشان کن ہہیں۔
محمد ابوالغاسم دولابی، جو مجلس خبرگان رہبری ( سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والے ادارہ ) کے رکن بھی ہیں، نے کہا کہ ایران میں لوگ مذہب سے دور ہو رہے ہیں۔
ایران انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے’معاشرے میں لوگوں کا مذہب سے تعلق کمزور ہونے اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر مذہبی احکامات کی بنیاد پر حکومت کرنے کا جواز بھی کمزور پڑ رہا ہے‘۔
محمد ابوالغاسم دولابی کا کہنا ہے: ’جب لوگ مذہب کی نتائج کا جائزہ لیتے ہیں، تو وہ مذہب کی طرف آنے یا مذہب سے دور ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں‘۔
’وہ مذہب سے دور تب ہوتے ہیں جب مذہب کے نام پر انسانوں سے برا سلوک کیا جاتا ہے، مذہبی نظریات اور تعلیمات کی غلط تشریح کی جاتی ہے، جب لوگوں کو مذہب کے نام پر بہتر زندگی سے محروم کرکے انہیں غربت سے دوچار کیا جاتا ہے‘۔
ایرانی صدر کے رابطہ کار کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو مذہبی بنیادوں پر قائم ہونے والی حکومت کو ظالمانہ آمریت سمجھتے ہیں۔ اس کی عکاسی ایک کرد نوجوان خاتون مہسا امینی کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پرتشدد احتجاجی مظاہروں سے بھی ہوتی ہے جو گزشتہ برس ستمبر میں شروع ہوئے اور کئی ماہ تک جاری رہے۔
واضح رہے کہ مہسا امینی کے سر میں لوہے کا بھاری اوزار مار کر ایرانی پولیس اہلکاروں نے ہلاک کردیا تھا۔ کرد خاتون پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے مکمل طور پر سر نہیں ڈھانپا تھا۔