سپریم کورٹ میں کانسٹیٹوشن ایونیو ون (گرینڈ حیات ہوٹل) سے متعلق نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے درخواستیں غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دیں۔
سپریم کورٹ میں کانسٹیٹوشن ایونیو ون (گرینڈ حیات ہوٹل) سے متعلق نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی۔ اس دوران سی ڈی اے کے وکیل نے کہا یہ کیس پہلے تین ججز نے سنا تھا قانون کے مطابق اب بینچ بڑھانا ہوگا۔
سی ڈی اے کے وکیل کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کی نظر ثانی اب غیر مؤثر ہو چکی ہے، ایسے میں سی ڈی اے لیز منسوخ کرکے عمارت سیل کر چکا ہے۔
اس موقع پر گرینڈ حیات ہوٹل کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہماری نظر ثانی چار نکات پر مشتمل ہے ۔ سی ڈی اے نے 4 ارب میں لیز معاہدہ کیا۔ معاملہ سپریم کورٹ آیا تو عدالت نے 8 سالوں میں 17 ارب روپے جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا حکم بڑا واضح ہے ۔ ایک قسط بھی ڈیفالٹ کرنے پر سی ڈی اے لیز منسوخ کر سکتا تھا۔
جس پر گرینڈ حیات ہوٹل کے وکیل نے جواب دیا کہ پراجیکٹ کی رقم بڑھانے سے پراجیکٹ چلانا ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا عدالت رقم اور مدت کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں کسی پیسے کے معاملے میں فیصلہ نہیں دوں گا۔ بھول جائیں کہ 17 ارب کو 10 ارب کردوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا کیا آپ یہ معاملہ ہائیکورٹ لے گئے۔ ہماری آبزرویشنز آپ کے مقدمہ پر اثر انداز ہوں گی۔
بعد ازاں فاضل عدالت نے سی ڈی اے اور ہوٹل مالکان کی نظر ثانی درخواستیں غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دیں۔