جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامہ آرائی سمیت دہشتگردی کی دفعات کے تحت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف درج 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواست پر سماعت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کے جج راجا جواد حسن عباس نے کی۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ ایک ایک ایف آئی آر پڑھ کر دلائل سے استغاثہ کی بدنیتی ثابت کریں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی تمام مقدمات میں شامل تفتیش ہوچکے ہیں۔
سلمان صفدر نے عمران خان کی کرکٹ سے لے کر سماجی شعبہ میں خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے احتساب کا غیر جانبدار نظام موجود تھا۔ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے بعد عمران خان کیخلاف اسکور سیٹ کرنے کے لیے 150 مقدمات بنائے گئے۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ شہباز گل کیس کے بعد پہلی بار چیئرمین پی ٹی آئی کو کیس میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی ہر مقدمے میں پیش ہورہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کوئی پولیس اہلکار کو خوف زدہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ تمام مقدمات میں پولیس ہی متاثرہ فریق ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی پر حکومت چھوڑنے سے پہلے ایک بھی فوجداری مقدمہ نہیں تھا، اب تو 302 کے مقدمے بھی مجبوراً بن رہے ہیں۔ کیا چیئرمین پی ٹی آئی نے 71 سال کی عمر میں ہی سارے جرائم کرنا تھے۔ مجبوراً بغاوت ، دہشتگردی ، سائفر کے مقدمات بن رہے ہیں کیونکہ کچھ اور بن نہیں رہا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پولیس اعلی حکام کے غیرقانونی احکامات لے رہی ہے۔ چئیرمین پی ٹی آئی صرف اںصاف کے حصول کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ ’ فوجداری مقدمات کب بنے جب ہم آپ کی عدالت میں کھڑے تھے، تمام کیسز کا ایک ہی طریقہ کار ہے، 2022 سےکوشش ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کیا جائے۔‘
استغاثہ نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ وکیل صفائی غیر متعلقہ دلائل دے رہے ہیں جب کہ عمران خان مختلف مقدمات میں ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے ہیں۔
وقفہ کے بعد سماعت کے آغاز پر عمران خان خود روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ پر امن احتجاج ان کا حق ہے اور وہ کہیں بھی جاکر احتجاج کر سکتے ہیں، تاہم انہوں نے کہیں بھی کسی کو تشدد پرنہیں اکسایا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کیخلاف تمام مقدمات ایما کی بنیاد پر بنائے جارہے ہیں۔ ’مجھے کوئی ایک واقعہ بتا دیں جس میں میں نے کہا ہو کہ تشدد کریں۔۔۔ ایسے تو جمہوریت کو ختم کر دیں گے۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تشدد پر اکسانے کی تردید پر پولیس پروسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اندر بیٹھ کر کہا تھا کہ اگر دوبارہ گرفتاری ہوئی تو دوبارہ یہی ہو گا۔ جس پر عمران خان بولے؛ میں نے تشدد کا کبھی ذکر نہیں کیا۔