16جون 2023ء کو ڈینیل ایلز برگ کی موت سے اظہار رائے کی آزادی کا ایک طویل باب بند ہو گیا۔ ایلز برگ نے 92 سال کی عمر پائی اور تمام عمر ایک ایسے عالمی ہیرو کی شکل میں زندگی گزاری جس نے بڑے خطرات مول لے کر پینٹاگون پیپر عوام تک پہنچائے تاکہ ویت نام کی جنگ کے بارے میں امریکی حکومت کی غلط بیانیوں کا پردہ چاک کیا جا سکے۔
ایلز برگ ایک امریکی سیاسی کارکن بھی تھے اور ایک ماہر معیشت بھی، جو امریکی فوج کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ رینڈ کارپوریشن کے لیے کام کرتے ہوئے انہوں 1971ء میں ایک دھماکا خیز کام یہ کیا کہ پینٹاگون یعنی امریکا کے اعلیٰ ترین فوجی ادارے کے خفیہ ترین کاغذات اور دستاویزات کو عام کر دیا یعنی عوام کی دست رس تک پہنچا دیا۔
یہ دستاویزات ویت نام کی جنگ کے دوران امریکی فیصلہ سازی کی تفصیلات بیان کرتی تھیں جنہیں ایلز برگ نے نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور دیگر اخباروں کے حوالے کر دیا۔ جنوری 1973ء میں ایلز برگ پر 1917ء کے جاسوسی قانون کے تحت فرد جرم عائد کی گئی جس میں چوری اور سازش کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔
ان الزامات کے تحت ایلز برگ کو 115 سال تک کی قید کی سزا ہوسکتی تھی لیکن 2 سال 4 ماہ بعد مئی 1973ء میں عدالت نے ایلز برگ کو تمام الزامات سے بری کردیا۔
ایلز برگ نے اپنی زندگی میں کئی انعام حاصل کیے اور بہت سے اعزازات سے نوازے گئے۔ انہوں نے اپنی عمر کے آخری برسوں میں وکی لیکس اور ایڈورڈ سنوڈن کی بھرپور حمایت کی۔
پینٹا گون پیپرز کا پورا عنوان تھا ’1945 سے 1968 تک ویت نام میں امریکی فیصلہ سازی کی تاریخ‘۔ ان دستاویزات کو جون 1967ء میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ میکنا مارا نے جمع کرنے کا حکم دیا تھا کیوں کہ انہیں خود اس جنگ کے بارے میں شکوک و شبہات ہونا شروع ہو گئے تھے کہ آیا یہ جنگ صحیح اور عقل مندانہ فیصلے پر مبنی ہے یا نہیں۔
1971 ء میں جو مقدمہ چلا اس کا عنوان تھا ’نیو یارک ٹائمز بمقابلہ حکومتِ امریکا‘ اور اس مقدمے میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ سینسر شپ یا اظہار رائے کی آزادی کی حدود و قیود کیا ہیں۔
پینٹا گون پیپر لکھنے والوں کو خفیہ دستاویزات تک رسائی دی گئی تھی لیکن انہیں ذاتی انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ گوکہ رابرٹ میکنا مارا 1968ء میں اپنے عہدے سے سبک دوش ہوگئے تھے لیکن پینٹاگون پیپرز پر کام جاری رہا۔
یاد رہے کہ رابرٹ میکنا مارا امریکی تاریخ کے طویل ترین عرصے تک وزیر دفاع رہے یعنی 1961ء سے 1968ء تک 7 سال کا عرصہ انہوں نے اس عہدے پر گزارا اور صدر جان ایف کینیڈی اور لینڈن جانسن کے ادوار میں فرائض انجام دیے۔ جب امریکی صدر نکسن نے عہدہ سنبھالا تو پینٹاگون پیپرز پر کام روک دیا گیا۔ یہ تمام دستاویزات 47 جلدوں میں تھیں اور ان کی 15 نقول بنائی گئیں تھیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایلز برگ خود ان دستاویزات کی تصنیف و تالیف کرنے والوں میں شامل تھے اور انہوں نے فوج کے تعاون سے 2 سال ان دستاویزات پر کام کیا تھا۔ اس کام کے دوران ایلز برگ جو کبھی ویت نام جنگ کا حامی ہوا کرتے تھے اس کے شدید مخالف ہوتے گئے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ اگر عوام کو ان دستاویزات کی تفصیل کا علم ہو جائے تو امریکا میں ویت نام جنگ کے حامی بھی اس کے مخالف ہوجائیں گے جس سے جنگ کی غارت گری ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے پہلے تو ان دستاویزات کو عام کرنے کی بات کی تاکہ سرکاری طور پر ان کو عوام کے لیے کھول دیا جائے لیکن سرکاری ذرائع نے اس کی شدید مخالفت کی تو مارچ 1971ء میں ایلز برگ نے ایک نقل نیویارک ٹائمز کے نیل شیہان کو دے دی۔ طویل غور و خوض کے بعد اخبار نے یہ دستاویز قسطوں میں شائع کی۔
اخبار نے فیصلہ کیا کہ 9 قسطوں پر مشتمل اس اشاعت کی پہلی قسط 13 جون 1971ء کو شائع کی جائے ۔
صدر نکسن کی انتظامیہ نے امریکی ضلعی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ مزید اشاعت روک دی جائے کیونکہ اخبار نے رضا کارانہ طور پر ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ پھر ایلز برگ نے ایک نقل واشنگٹن پوسٹ کو بھی دے دی جس نے 18 جون کو اس طرح کی اشاعت شروع کردی جس پر دوسرا مقدمہ کر دیا گیا۔
دونوں مقدمات میں ججوں نے حکومتی درخواست پر حکم امتناع یا اسٹے آرڈر دینے سے انکار کر دیا لیکن دونوں میں یہ حق برقرار رکھا گیا کہ ان فیصلوں کے خلاف اپیل کی جاسکے۔
جب دونوں عدالتیں مختلف فیصلوں پر پہنچیں تو سپریم کورٹ نے فوری طور پر ان مقدمات کی سماعت پر رضا مندی ظاہر کی اور اکتوبر تک انتظار نہیں کیا۔
چوں کہ سپریم کورٹ نے 3 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے اشاعت کی اجازت مقدمہ شروع ہونے کے صرف 2 ہفتے کے اندر دے دی اس لیے متفقہ فیصلے کی تیاری کا وقت نہیں تھا۔ اس کے بجائے اکثریت نے رائے شماری سے فیصلہ دے دیا اور کہا کہ حکومت ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اشاعت روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے پھر ہر جج نے اپنی رائے کا تفصیل سے اندراج کیا ۔
اس دوران اخبارات نے اپنی اشاعتیں مکمل کرلیں جن کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں اور پھر جب نیویارک ٹائمز نے کتابی شکل میں یہ دستاویزات شائع کیں تو ویت نام کی جنگ کے بارے میں نئے سرے سے بحث مباحثے شروع ہوئے جب کہ سرکاری موقف کی صرف 500 کاپیاں فروخت ہو سکیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کو حکومتوں کے موقف پر کتنا بھروسہ ہوتا ہے۔
2022 ء میں جاری ہونے والے سرکاری میمو کے مطابق محکمہ انصاف نے سوچا تھا کہ اخبارات کے خلاف مزید جرائم کے مقدمے قائم کیے جائیں اور انفرادی اخبار نويسوں یا صحافیوں کو بھی عدالتوں میں گھسیٹا جائے لیکن پھر نئے مقدمات بنانے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
محکمے نے ایلز برگ کے خلاف الزامات لگائے لیکن انہیں عدالت نے مسترد کر دیا کہ ان دستاویزات کی اشاعت سے قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
اب اگر اس طرح کے صورت حال کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے سرکار کے لیے کام کرنے والوں میں شاید ہی کسی کے پاس ایلز برگ جیسا ظرف اور عزم و حوصلہ ہو کہ وہ ایک جنگ کے دوران خود اپنے ملک کی حکومت کے غلط فیصلوں سے اختلاف کرے اور پھر عوام کو اُن سے آگاہ کرنے کی جرأت کرے ۔
پھر اگر پاکستان میں کوئی ایسا کر بھی لے تو اس کے لیے ویگو ڈالا تیار ہوگا۔ ابصار عالم اور مطیع الله جان سے کر حامد میر اور سلیم شہزاد تک سب نے ذرا بھی ہمت کی تو انہیں نشان عبرت بنانے میں دیر نہیں لگائی گئی۔ ابصار عالم اور حامد میر پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ مطیع الله جان کو اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سلیم شہزاد تو بے چارے بے دردی سے قتل کردیے گئے اور جب ان کا تشدد زدہ جسد منڈی بہاء الدین کے قریب ایک نہر سے برآمد ہوا تو دارصل وہ ایک پیغام تھا ملک بھر کے تمام صحافیوں اور اظہارِ رائے کی آزادی کا دم بھرنے والوں کے لیے کہ وہ باز آجائیں اور کوئی بھی ایسی خبر یا تجزیہ یا تفصیل عام کرنے کی کوشش نہ کرے جس سے عوام کی معلومات اور شعور میں اضافہ ہو اور حکومتِ وقت سے اور ریاستی اداروں سے جواب دہی کی کوئی کوشش نہ کریں ۔
پاکستان میں ڈان لیکس کا ڈراما پھر پاناما لیکس کا استعمال کرکے خود سیاست دانوں کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ایلز برگ جیسے لوگ برداشت نہیں کیے جاتے اور نہ یہاں کی عدالتیں اُن کا تحفظ کرتی ہیں۔