آئی ایم ایف معاہدہ ہونے کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ ایک دن میں 100 انڈیکس میں 2230 پوائنٹس کی ریکارڈ کی گئی ہے۔ 100 انڈیکس 5.30 فیصد اضافے سے 43721 کی بلند سطح تک ٹریڈ ہوا 100 انڈیکس 5 فیصد سے زائد ہونے پر اپر لاک لگ گئے ہیں۔
اپر لاک یا لور لاک کیا ہوتا ہے؟
اپر لاک سے مراد جب 100 انڈیکس میں ایک دن میں 5 فیصد اضافہ ہو جائے اس صورت میں کاروبار کو روکا جاتا ہے اور کچھ وقفے کے بعد دوبارہ آغاز کیا جاتا ہے جبکہ لور لاک کے مطلب یہ ہے کہ جب 100 انڈیکس میں ایک دن میں 5 فیصد کمی آجائے تو ایسی صورت میں بھی کاروبار کو کچھ دیر کے لیے روکنا پڑتا ہے، قوانین کے تحت دونوں صورتوں میں مارکیٹ میں ٹریڈنگ کا عمل ایک گھنٹے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
معاشی ماہر شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ آج سے نئے مالی سال کا آغاز ہو رہا اور اسٹاک مارکیٹ کے کاروباری ہفتے کا بھی آغاز ہو رہا ہے، آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول پر اگریمنٹ ہو چکا ہے جس کے مثبت اثرات آنا شروع ہو چکے ہیں۔ بلومبرگ نے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات ختم ہو جائیں گے۔ اس کے ڈالر کی قیمت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
ڈالر سستا ہوگیا سونے کی قیمت بھی کم ہوگی
دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر 5 روپے سستا ہوگیا، اوپن مارکیٹ میں ڈالر 290 روپے سے کم ہوکر 285 روپے کا ہو گیا ہے۔
ڈائریکٹر ایکسچینج کمپنی ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 5 روپے سستا ہو گیا ہے، آئی ایم ایف کی ڈیل کی بدولت یہ اثرات مرتب ہوئے جو آئندہ دنوں میں سونے کی قیمت میں بھی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
آئی ایم ایف معاہدہ کے بعد روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کتنی کمی متوقع ہے؟
تحریر: مہتاب حیدر
پاکستان کو اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (SBA) کے تحت 3 بلین ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکج پر اسٹاف لیول کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی کثیر جہتی اور دوطرفہ قرض دہندگان سے 4سے پانچ بلین ڈالر ملنے کی توقع ہے، جس سے اسلام آباد کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مضبوط کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ سے SBA پروگرام کی منظوری کے بعد پاکستان کو ملنے والے ڈالرز سے معاشی بنیاد میں بہتری کے ساتھ ساتھ روپے کی شرح مبادلہ کو 8 سے 10 فیصد تک بہتر بنانے کے امکان کے ساتھ مضبوط کرے گی۔
فنانس ڈویژن کے اعلیٰ حکام نے اتوار کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم متحدہ عرب امارات سے 1 بلین ڈالر کے اضافی ڈپازٹ پر بات چیت کے عمل میں ہیں جو بہت جلد اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کو موصول ہونے کی امید ہے۔‘
آئی ایم ایف اپنے بورڈ کی رضامندی کے بعد جولائی 2023 کے دوسرے ہفتے میں 1 بلین ڈالر کی قسط جاری کرنے جا رہا ہے۔ سعودی عرب نے فنڈ پروگرام کی بحالی کے بعد آئی ایم ایف کو 2 بلین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ پاکستان اور سعودی عرب نے معاہدے کے مسودے کا تبادلہ کیا لیکن اسے حقیقت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ KSA اور UAE دونوں نے گزشتہ اگست 2022 میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے بالترتیب 2 بلین ڈالر اور 1 بلین ڈالر اضافی ڈپازٹس کی فراہمی کا عندیہ دیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔
12 جولائی 2023 کو اپنے طے شدہ اجلاس میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے نئے قرضہ پیکیج کی منظوری کے امکان کے تناظر میں، پاکستان کو دو طرفہ دوستوں سے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا تاکہ اپنے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو ایسے وقت میں بہتر بنایا جا سکے جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی اتحادی حکومت اگست 2023 کے دوسرے ہفتے میں اپنی مدت پوری کرے گی۔
اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 10.8 بلین ڈالر تھے جب عمران خان کی قیادت میں حکومت کو اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹا دیا گیا تھا۔ اب زرمبادلہ کے ذخائر قریباً 4 بلین ڈالر کی کم ترین سطح پر ہیں اور یہ PDM کے لیے مشکل صورتحال ہوگی کہ وہ اپنی آئینی مدت مکمل ہونے تک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو 8 سے 10 بلین ڈالر تک پہنچا سکے۔
پاکستان عالمی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB) سے 700 ملین ڈالر کی توقع کر رہا ہے۔ عالمی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB) سے بالترتیب 450 ملین ڈالر RISE-II پروگرام قرض اور AIIB سے 250 ملین ڈالر کی توقع کر رہا ہے۔
پاکستان نے چینی اور دبئی کے بینکوں سمیت کمرشل بینکوں کو قریباً 5 بلین ڈالر کی ادائیگی کی تھی جس میں سے 2 بلین ڈالر پہلے ہی چینی بینکوں کی جانب سے ری فنانس کیے گئے تھے۔ اب آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری کے بعد، پاکستان کو مختصر مدت کے تجارتی قرضے فراہم کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات کے کمرشل بینکوں سے رجوع کرنا پڑے گا اس طرح اسلام آباد کو ڈالر کی لیکویڈیٹی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
درآمدات پر پابندیاں اٹھانے کے بعد، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ سکتا ہے اور اسٹیٹ بینک کو بتدریج درآمدات کھولنے میں معمول پر لانا ہوگا۔ مجموعی طور پر، ڈالر کی آمد میں بہتری کے ساتھ، شرح مبادلہ کے مضبوط ہونے کی توقع ہے لیکن اس کے استحکام کا زیادہ تر انحصار اگلے نو ماہ کی مدت میں آئی ایم ایف پروگرام کے تسلسل کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے پر ہوگا۔