پاکستان کے دونوں اہم لیڈر یو اے ای میں سر جوڑے بیٹھے ہیں ۔ ہمارا میڈیا ہمیں بتا رہا ہے کہ آصف زرداری نوازشریف سے پنجاب میں سیٹیں مانگ رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانا ہے ۔ پنجاب کی وزارت عالیہ لینی ہے ۔ میاں صاحب مان نہیں رہے ۔ پی ٹی آئی والوں کی نظر سے دیکھیں تو امپورٹڈ حکومت کے یہ 2 لیڈر ٹھیک وہاں بیٹھے نوٹ گن رہے ہیں ۔ دونوں کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ تیزی سے گن سکیں۔ اس لیے بلاول اور مریم کو بھی بلا لیا کہ آ کر ہاتھ بٹائیں۔ اگر ہم منہ کالا کرپٹوں والا گانا گائیں تو پھر یہی بات ٹھیک لگتی ہے۔
بے خبر نے جو اطلاع دی ہے اس کے مطابق آصف زرداری اور نواز شریف نے آئندہ سیٹ اپ کے حوالے سے بات دو چار منٹ سے زیادہ نہیں کی۔ اس میں بھی دونوں پہلے آپ پہلے آپ ہی کرتے رہے۔ دو تین آپشن ان کے نتائج اور فوائد کو سوچا اور پھر بعد میں دیکھیں گے کہہ کر چھوڑ دیا۔
بے وثوق بھی میاں صاحب کے پیچھے ہی لگا گھوم رہا ہے۔ اس کے مطابق نوازشریف کو پہلے دبئی میں رہنا تھا، پھر سعودیہ جانا تھا، پھر ابو ظہبی آنا تھا اور وہاں بات پکی کر کے لندن جانا تھا۔ اس کے بعد پھر کسی کو پاکستان سے جانا تھا اور جن باتوں پر اتفاق ہوا ان پر متفق ہو جانا تھا۔
پہلے تو یہ دیکھیں کہ جہاں ہمارے دونوں لیڈر بیٹھے ہیں۔ جدھر انہیں آنا جانا ہے وہاں ہو کیا رہا ہے۔ یو اے ای اور سعودی عرب دونوں ہی اپنی اکانومی کا انحصار انرجی سے ہٹا کر انڈسٹری پروڈکشن، سیاحت اور انویسٹمنٹ کی طرف کر رہے ہیں ۔ ہمارے بھارت مہان میں سعودی عرب نے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اور یہ کن سیکٹر میں ہونی ہے یہ بھی بتایا ہوا ہے۔
یہ پڑھ کر پی ٹی آئی والوں کے پھر کان کھڑے ہو گئے کہ کشمیر بکنے لگا ہے۔ یہ دونوں لیڈر ٹھیک نوٹ پکڑنے لگے ہیں۔ نوازشریف کے ساتھ کارگل ہوا، نوازشریف کے ساتھ مودی کا یار ہوا۔ کبھی شک پڑنے پر اپنوں نے جلاوطن کیا جیل میں ڈالا کبھی ان کے یار مودی نے ہی ہمت نہیں کی۔ اب نوازشریف کیا کہتے ہونگے؟ میں راضی ہوں؟ وہ یہی کہتے ہونگے کہ بھائی میں رج گیا، میری طرف سے جواب ہے۔ اب جو کرنا ہے یا مودی کرے یا وہ کریں جنہیں شک ہوتا تھا۔ آصف زرداری نے بھی ایک دوستانہ بیان دیا تھا اس کے بعد ان کے ساتھ بھی کچھ ہوا تھا۔ آگے چلتے ہیں۔
سعودی ایران تعلقات بحال ہوئے ہیں۔ یہ چین نے کرائے ہیں۔ پاکستان نے یہ تعلقات کی خرابی بھگتی ہے۔ سی پیک بھی بلوچستان میں ایران کے پڑوس میں مکمل ہونا ہے۔ آصف زرداری نے ایران سے گیس پائپ لائین کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ یہ دونوں جب وہاں بیٹھے ہیں تو اپنی بات بھی تو کرتے ہوں گے کہ نہیں؟ بھائی ہمیں بھی تو بتاؤ کہ ہمیں کتنی گنجائش ملے گی۔ کچھ ہمارا فائدہ بھی ہو گا یا نہیں؟
پاکستان نے حال ہی میں فاسٹ ٹریک انویسٹمنٹ پلان کا اعلان کیا ہے۔ انویسٹر کو ون ونڈو کی سہولت دی جائے گی۔ انویسٹر کو شکایت ہوتی تھی کہ پاکستان میں اسے گلی گلی گھمایا جاتا ہے۔ وفاقی صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے پاس خجل ہونا پڑتا ہے، سیکیورٹی والوں کے اعتراض الگ ہوتے ہیں۔ بیوروکریٹک سستی الگ سے رکاوٹ بنتی ہے۔
انڈیا میں ہونے والی انویسٹمنٹ تب بیکار رہتی ہے جب تک ریجنل کنیکٹویٹی کی طرف نہیں بڑھا جاتا۔ پاکستان میں انفراسکٹرکچر تعمیر اور بہتر کرنا ہو گا۔ ایگری کلچر، فارمنگ، فوڈ سیکیورٹی، انرجی، مائننگ، آئی ٹی اور 25 کروڑ آبادی بطور گاہک۔ جس میں کئی ملین کی قوت خرید یورپ جیسی ہے۔ پاکستان انویسٹمنٹ کے لیے امکانات سے بھرپور ایک ملک ہے۔
آگے بڑھنا ہے تو فیصلے کون کرے گا، کہاں ہونگے؟ پنڈی کرے گا یا اسلام آباد۔ دبئی میں بیٹھی لیڈر شپ اس سوال کا جواب اور گارنٹی چاہ رہی ہے۔ فاسٹ ٹریک انویسٹمنٹ کے انی شیٹیو نے کسی حد تک بتا دیا ہے کہ فیصلے مل جل کر ہی ہونگے۔ اسٹیرنگ پھر بھی سول اپنے پاس ہی رکھنا چاہے گا۔ سیدھی بات کریں تو نوازشریف اب فیصلوں پر اختیار اور اس کی گارنٹی چاہتے ہیں۔ جو مل جائے گی۔
آصف زرداری میثاق جمہوریت ٹو یا یوں کہہ لیں کہ وہ کام جو پہلے میثاق میں رہ گئے تھے اور نہیں کیے گئے اب وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اب وہ اس پر اتفاق رائے اور عمل درامد کے لیے جزئیات طے کر رہے ہیں۔ ویسے ہی چلتے چلتے عرض ہے کہ میثاق جمہوریت میں آئینی مقدمات کے لیے الگ سپریم کورٹ بنائی جانی تھی جس میں سب وفاقی اکائیوں کی برابر نمائندگی ہو۔ ججوں کی تعیناتی میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار اہم ترین ہونا تھا۔ وہ کیا بھی گیا لیکن اسے سپریم کورٹ نے ہی اڑا دیا۔ تب ایسا کرتے اور مانتے ہوئے مسلم لیگ نون شرما گئی۔ نتیجے میں ہم کو عدالتی فیصلے اربوں ڈالر میں پڑے۔ اب میثاق جمہوریت ٹو میں اس قسم کی باتیں طے ہوں گی۔
کس کو کیا ملے گا یہ بہت معمولی باتیں ہیں۔ فیصلے بڑے ہو رہے ہیں۔ جن کے نتائج ہماری سمت کا تعین کریں گے۔ پاکستانی سیاست روٹھ کر دبئی نہیں بیٹھی یہ پاکستان کی قسمت بدلنے کی بات ہے۔