9 مئی واقعہ کے بعد اسلام آباد کے سیف ہاؤس میں رات گئے اچانک ایک منٹ کی پریس کانفرنس میں پارٹی عہدہ یعنی تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد سیاسی منظر نامے سے غائب رہنے والے سینیئر سیاست دان، سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ایک بار پھر صوبے میں سیاسی سر گرمیاں شروع کر دی ہیں۔
قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک 9 مئی کے بعد اسلام آباد میں ہی مقیم تھے تاہم عید قربان پر آبائی علاقے نوشہرہ کا رخ کیا جہاں حلقے کے لوگوں سے ملاقات کی اور عید کے بعد پورے حلقے کا دورہ بھی کیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک پشاور بھی کئی بار گئے اور اہم ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
پروپز خٹک کی کیا مصروفیات ہیں؟
پارٹی عہدہ چھوڑنے اور بعد میں پارٹی سے نکالے جانے کے بعد بھی پرویز خٹک سوشل میڈیا پر غیر فعال ہیں اور کسی قسم کی کوئی سیاسی رائے بھی نہیں دے رہے۔ تاہم عمران خان کے حوالے سے جو بیان ان سے منسوب کیا گیا تھا اس کی تردید کر چکے ہیں۔
’بیان میں کہا گیا تھا کہ پرویز خٹک نے عمران خان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ پورے پاکستان سے کہیں بھی ان کے خلاف الیکشن لڑیں تو وہ چیئرمین پی ٹی آئی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہیں‘
یہ بھی پڑھیں پرویز خٹک کی عمران خان کو الیکشن لڑنے کا چیلنج دینے کی تردید
پرویز خٹک کے صاحبزادے تحصیل ناظم اسحاق خٹک والد کی سرگرمیوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کرتے رہتے ہیں۔ اسحاق خٹک کے مطابق پرویز خٹک نوشہرہ کے اپنے حلقے میں سر گرم ہیں جبکہ قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ عوامی ملاقاتوں کے علاوہ اہم ملاقاتوں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اب پرویز خٹک کسی کے ساتھ بھی ٹیلیفون پر بات کرنے کے بجائے ملاقات کر رہے ہیں اور اپنے ایجنڈے اور پلاننگ کے حوالے سے قریبی ساتھیوں کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ مشاورت بھی کر رہے ہیں۔ الیکشن میں کس طرح جانا ہے اور کیا حکمت عملی ہو گی؟ اس پر دن رات جوڑ توڑ اور مشاورتوں کا بظاہر ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پرویز خٹک نے پشاور میں بھی کچھ اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ جبکہ نوشہرہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے نوجوان صحافی محمد فہیم کا خیال ہے کہ ’کے پی کے‘ میں پرویز خٹک اپنے ساتھیوں اور حمایتیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے سرگرم ہیں اور انہیں اس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔
پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے روپوش رہنما
پرویز خٹک سیاسی طور پر سرگرم ہونے کے بعد ہفتہ 15 جولائی کے روز تحریک انصاف کے 2 روپوش سابق اراکین کے ساتھ اچانک عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ارباب وسیم اور ملک واجد انسداد دہشتگردی عدالت کے سامنے پیش ہوئے جہاں ان کی ضمانت خارج ہونے کے بعد توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان دونوں کے اچانک منظر عام پر آنے کو پرویز خٹک کےساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے پرویز خٹک کے ساتھ معاملات طے پانے کے بعد ارباب وسیم اور ملک واجد نے گرفتاری دی ہے۔
سینیئر صحافی محمد فہیم کی بھی یہی رائے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ صرف یہی دو سابق اراکین ہی نہیں بلکہ کافی تعداد میں دیگر اراکین بھی پرویز خٹک کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ وقت آنے پر سامنے آئیں گے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فدا عدیل کی رائے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں دو سابق اراکین کے اچانک منظر عام پر آنے کو پرویز خٹک کے ساتھ جوڑنا قبل از وقت ہے۔ فدا عدیل کا کہنا ہے کہ حالات ساز گار نہیں ہیں اس لیے کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔
کچھ ذرائع بتاتے ہیں کہ پرویز خٹک کے پی کے سے اپنے ساتھیوں کو ان مشکل حالات سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔
کیا پرویز خٹک عمران خان کے اشارے پر عمل پیرا ہیں؟
پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر اکسانے کے الزام پر پرویز خٹک کو تحریک انصاف سے نکال دیا گیا ہے۔ تاہم سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اس صورت حال کو عمران خان کی حکمت عملی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ فدا عدیل کا بھی اس حوالے سے یہی خیال ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’کے پی کے میں ساری نظریں پرویز خٹک پر لگی ہیں۔ وہ سیاسی جماعت یا گروپ بناتے ہیں، یا کسی بڑی جماعت کا حصہ بنتے ہیں، سب کو انتظار ہے۔’
فدا عدیل کہتے ہیں کہ پرویزخٹک نے جتنے بھی لوگوں سے رابطے کیے ہیں وہ آخر میں عمران خان کے نام کو ہی استعمال کرکے الیکشن میں جانے کا بول رہے ہیں۔ سینیئر صحافی کہ مطابق پرویز خٹک ساری چال عمران خان کی رضا مندی سے چل رہے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کو ان مشکل حالات سے نکالا جا سکے لیکن اُن کی دال نہیں گل رہی۔
کیا پرویز خٹک تنہا رہ گئے؟
9 مئی کے بعد پرویز خٹک کی سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن زیادہ تر ملاقاتیں حلقے کے یونین کونسل ممبران سے ہوئی ہیں جبکہ صوبے کے اہم رہنماؤں سے کھل کر کوئی ملاقات کی خبر نہیں آئی ہے یا کسی ساتھی نے ابھی تک ان کی حمایت نہیں کی۔
تحریک انصاف کے دو سابق اراکین نے وی نیوز کو پرویز خٹک کی جانب سے رابطے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک نے ان سے ساتھ چلنے اور مل کر الیکشن میں جانے پر بات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پرویز خٹک نے ابھی تک خود کو عمران خان سے الگ نہیں کیا، وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کا ووٹ انہیں ملے۔
فدا عدیل کا کہنا ہے کہ اس وقت سابق اراکین پرویز خٹک کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں کیوں کہ انہیں پارٹی سے نکالا جا چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوشہرہ میں ان کے قریبی ساتھی خلیق زمان، مرحوم وزیر اور پرویز خٹک کے قریبی ساتھی میاں جمشید الدین کے بیٹے بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے، ان حالات میں اور کون ساتھ کھڑا ہو گا۔ ان کے مطابق پرویز خٹک جب پی ٹی آئی میں تھے تو ان کا سیاسی وزن زیاہ تھا۔
تاہم صحافی حمد فہیم کا خیال ہے کہ پرویز خٹک کے ساتھ اب بھی 30 سے35 سابق ایم پی ایز اور ایم این ایز ہیں جنہیں لے کر وہ الیکشن میں جانے کی مکمل تیاری کر رہے ہیں۔
پرویز خٹک پی ٹی آئی سے ملتے جلتے نام سے پارٹی بنا سکتے ہیں؟
پرویز خٹک کے بارے میں ان کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ وہ ان دنوں پس پردہ سرگرم ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کے لیے ساتھیوں اور پارٹی کے سابق اراکین اور اہم سیاسی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک ٹارگٹ ہے۔
فدا عدیل کا بھی یہی خیا ل ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر پرویز خٹک الگ پارٹی بنا لیتے ہیں تو تحریک انصاف سے ملتے جلتے نام سے بنائیں گے تاکہ ووٹرز کو قبول ہو۔
پرویز خٹک آنے والے دنوں سے میں پریس کانفرنس کر سکتے ہیں؟
ایک منٹ کی پریس کانفرنس میں پارٹی عہدہ چھوڑنے والے پرویز خٹک پارٹی سے نکالے جانے کے بعد اب اہم اور طویل پریس کانفرنس کر سکتے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی اور سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وقت بہت کم ہے اور آنے والے دنوں میں سابق وزیراعلیٰ اپنا سیاسی لائحہ عمل عوام کے سامنے رکھیں گے۔
محمد فہیم نے وی نیوز کو بتایا کہ قوی امکان ہے کہ پرویز خٹک اسلام آباد میں پریس کانفرنس کریں گے اور سیاسی وزن شو بھی کریں گے۔
پرویز خٹک کا ہدف اقتدار ہے حلقے میں جیت نہیں
تحریک انصاف میں پرویز خٹک کے ساتھ ان کے خاندان کے دیگر افراد اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں بھی اقتدار پر ویز خٹک کا ہدف ہو گا۔ ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ پرویز خٹک سنجیدہ اور سمجھ دار سیاست دان ہیں۔ کہتے ہیں کہ حلقے سے جیت یا سیاست ان کا مقصد نہیں۔ اقتدار ان کا ہدف ہے۔