پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے اعظم خان کو اغوا کر کے وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کیا گیا۔
جمعرات کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ’جس اعظم خان کو میں جانتا ہوں وہ ایک قابل اور ایماندار آدمی ہے، جب تک میں اس سے نہ سن لوں میں نہیں مان سکتا۔ آج جو حربے استعمال کر رہے ہیں کسی کو اغوا کر کے یا گرفتار کر کے اس کو مجبور کریں کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ جب میں نے پہلی بار سائفر پڑھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ اس کی جرات کیسے ہوئی، اس سائفر میں یہ بھی بولا گیا کہ عمران خان کو ہٹاؤ، پھر مجھے سمجھ آئی کہ یہ سائفر تو میرے لیے نہیں ہے، یہ تو جنرل باجوہ کے لیے آیا تھا‘۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ’ سب سے پہلے تو بحثیت پاکستانی شرم آتی ہے کہ ایک پیغام بھجوایا گیا سفیر کی طرف سے کہ ملک کے وزیراعظم کو ہٹایا جائے لیکن شرم تو ادھر نہیں آتی جس آدمی (جنرل باجوہ) کی ذمہ داری تھی ملک کے وقار کو بچانا وہ ہی شامل تھا اور یہ سب رجیم چینج کو شروع کرنے والا جنرل باجوہ تھا‘۔
عمران خان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ اس وقت حکومت کر رہے ہیں وہ سائفر کو چھپانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سہولت کاروں کے ساتھ مل کر ایک منتخب حکومت گرائی گئی ان کو ڈر لگا ہوا ہے کہ کسی طرح عمران خان انتخابات میں نہ آ جائے اور انہیں خدشہ ہے کہ عمران خان الیکشن میں آ گیا تو ہم انتخابات ہی ہار جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مجھے الیکشن سے باہر کرنے اور مجھے نا اہل قرار دلانے اور جیل میں ڈالنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں اور 14 ماہ سے یہی سلسلہ جاری ہے۔
اپنے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جس اعظم خان کو میں جانتا ہوں وہ ایماندار اور قابل آدمی ہیں، سائفر کے حوالے سے جب تک خود اعظم خان سے کچھ نہ سن لوں یقین نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اعظم خان سے زبردستی بیان دلوایا جا رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ لوگوں کو سروں پر بندوق رکھ کر پارٹیاں تبدیل کروائی جا رہی ہیں، ہمارے لوگ جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، خواتین جیلوں میں ہیں، صورت حال یہ ہے کہ لوگوں سے زبردستی میری پارٹی چھڑائی جا رہی ہے، کسی کے سر پر بندوق اور کسی کو کہا جا رہا ہے کہ ٹی وی پر جا کر پارٹی چھوڑے کا اعلان کرو۔ اس طرح کا تماشا چل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں مانتا کہ اعظم خان نے اس طرح کی باتیں کہی ہیں اور یہ وہ سچ بھی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ 6 مارچ 2022 کو پاکستان کا سفیر اسد مجید اور امریکا کے نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کے درمیان واشنگٹن میں ایک ملاقات ہوتی ہے، یہ باقاعدہ آفیشل ملاقات تھی اس میں سائفر کا تبادلہ ہوا، سائفر خفیہ کوڈ پر مشتمل ہوتا ہے جو دُنیا کے تمام ممالک میں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سائفر جب پاکستان آیا تو اسے میں نے پڑھا اس میں 2 بہت اہم چیزیں تھیں، ایک یہ کہ عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانا ہے، دوسرا یہ لکھا تھا کہ عمران خان نے روس جانے کا اکیلے فیصلہ کیا جب کہ اسد مجید کہہ رہا ہے کہ یہ فیصلہ عمران خان نے اکیلے نہیں کیا بلکہ اس میں تمام فریقین شامل تھے۔
عمران خان نے کہا کہ میں اسد مجید کو سلام پیش کرتا ہوں وہ ہمارے غیرت مند سفیر ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سائفر میرے پاس بھی آیا، دفتر خارجہ بھی گیا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس بھی گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے جب دیکھا تو میں نے کہا کہ اس کی جرات کیسے ہوئی ہمیں ایسا کہنے کی اور وہ بھی ہمارے ملک کے سفیر کو بلا کر یہ کہتا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے ہٹاؤ۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب میں نے سائفر کا باریکی سے جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان کا سفیر تو میرے ماتحت ہے وہ مجھے کیسے ہٹا سکتا ہے، پھر میں نے کہا کہ مجھے پاکستان میں کون عہدے سے ہٹا سکتا ہے تو ظاہر ہے سب کو معلوم ہے، اس کی طاقت ایک ہی شخص رکھتا تھا اور وہ تھا جنرل باجوہ ۔ یہ سائفر جنرل باجوہ کے لیے ہی تھا۔
عمران خان نے کہا کہ اس وقت مجھے انٹیلی جنس بیور( آئی بی ) والے آ کر بتاتے تھے کہ شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ والوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جنرل باجوہ کی ساس کے گھر شہباز شریف اور باجوہ کے درمیان ملاقات ہوئی ہے، یہ ساری خبریں مجھے موصول ہو رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ سائفر کے آنے کے اگلے دن ہی میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آگئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری حکومت ہر لحاظ سے ترقی کر رہی تھی، ملک کی معیشت بہتری کی طرف گامزن تھی، کورونا وائرس جس نے پوری دُنیا کو بے بس کر کے رکھ دیا اس میں میری حکومت کے کیے گئے اقدامات کی پوری دنیا تعریف کر رہی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا فائننشل ایڈوائزر اس وقت کورونا کے حوالے سے کہہ رہا تھا کہ پاکستان جیسے اقدامات اگر امریکا کرتا تو 10 کھرب ڈالر امریکا کو بچ جاتے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ، ایجنسیاں اور اپوزیشن والے سب میری حکومت کے خلاف ہو گئے اور میری حکومت کے خلاف باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کی گئی، بحیثیت پاکستانی مجھے شرم آئی کہ اتنے جھوٹے عہدے والا آدمی میری حکومت کے خلاف منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ میں تمام تر چیزیں ثابت کر سکتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی فوج کے خلاف نہیں ہوں بلکہ ایک شخص کے خلاف ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے قتل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، مجھ پر جب حملہ ہوا تو سب نے دیکھا میں اپنے اوپر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر تک نہیں کٹوا سکا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان پر محض اس لیے غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا کہ انہوں نے جنرل فیصل نصیر پر تنقید کی۔