سرمد صہبائی اور ماموں کا ایوارڈ

پیر 24 جولائی 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ریاستِ پاکستان ہر سال 14 اگست کو قومی اعزازات کا اعلان کرتی ہے۔ پیش بندی کے طور پر اسلام آباد آئے ایک پرانے جاننے والے سے ملاقات ہوئی تو وہ اپنے ایک ماموں کو تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی دلوانا چاہ رہے تھے۔ جب ان سے دریافت کیا کہ آپ کے ماموں نے کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں ؟ تو انھوں نے بتایا میرے ماموں کے مجھ پر بہت احسانات ہیں ۔آج میں جو کچھ بھی ہوں ان کی وجہ سے ہوں۔تو میں نے سوچا ویسے تو ان کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا،چلیں میں اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کے لئے کچھ کر سکتا ہوں تو کیوں نہ ان کے لئے پرائیڈ آف پر فارمنس کے لئے کوشش کروں۔

اب اتفاق یہ تھا کہ میں ان کے ماموں کو بھی جانتا ہوں ۔ اپنے بھانجھے کے لئے تو واقعی انھوں نے بہت کچھ کیا تھا مگر باقی کو ئی قومی خدمت اس درجے کی نہیں کہ انھیں قومی ایوارڈ ہی دے دیا جائے۔ لیکن جس شد و مد سے بھانجھا اپنے ماموں کے لئے ریاستِ پاکستان کو ماموں بنا کر ان کو ایوارڈ دلوانا چاہ رہا ہے۔ کچھ بعید نہیں کے اپنے تعلقات کی بنا پر بھانجھا اپنے ماموں کے لئے ریاستِ پاکستان کو ماموں بنانے میں کامیاب ہو ہی جائے اور اس کے ماموں کو نا معلوم قومی خدمات کے اعتراف میں کوئی نہ کوئی قومی ایوارڈ مل جائے۔

یہ نہیں کہ پاکستان میں سارے قومی ایوارڈز اسی طرح ہی دیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ایوارڈ دینا دراصل ایوارڈ کی عزت افزائی ہوتی ہے اور ہر کوئی ایسے اقدام کو سراہتا ہے۔

چند برس قبل قومی اعزازات کے لئے مجوزہ نامون کی لسٹ جب وزیرِ اطلا عات تک پہنچی تو انھوں نے اپنے عملے سے پوچھا اس میں سرمد صہبائی کا نام ہے ؟

سرمد صہبائی اور مصنف

جواب نہ میں تھا ،وزیر نے کہا کہ شامل کریں ۔فوراً پی ٹی وی نے سرمد صاحب کی خدمات پر انھیں قومی ایوارڈ دینے کی دستاویزات تیار کرکے وزاتِ اطلاعات کو بھجوائیں لہذا اسی برس سرمد صہبائی صاحب کو تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی مل گیا۔اب سرمد صاحب کا جتنا اور جس معیار کا کام ہے ان کو ایوارڈ دینا ایوارڈ کی عزت افزائی جیسی بات ہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انھیں اس سارے عمل کا علم شاید آج تک بھی علم نہیں۔ سرمد صہبائی چونکہ امریکہ میں ہوتے ہیں لہذا وہ یہ ایوارڈ لینے بھی نہیں آئے۔ ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی ہمشیرہ نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ جب وہ امریکہ سے پاکستان آئے تو انھوں نے اکادمی ابیات میں چند دوستوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی محفل جمائی جہاں کلاسیکل گلو کار استاد شوکت منظور اور طبلہ نواز اجمل خاں مرحو مین کے بیٹوں نے گا کر حاضری دی ۔ بعد ازاں سرمد صہبائی صاحب نے دونوں اساتذہ کے بچوں میں انعامی رقم برابر تقسیم کردی۔

سرمد صہبائی صاحب کے دائیں طرف معروف گلوکار استاد شوکت منظور (مرحوم) کے صاحب زادے جب کہ بائیں طرف طبلہ پلئیر استاد اجمل خاں (مرحوم) کے فرزند کھڑے ہیں

سرمد صہبائی کو ایک زمانہ ،ایک زمانے سے جانتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں سرمد صہبائی کے کلاس فیلو نامور قانون دان اعتزاز احسن نے راقم کو اپنے ایک ویڈیو انٹرویو میں بتایا کہ کہ “جی سی میں ہمارا عہد سرمد صہبائی کا عہد تھا”۔

اصل میں سرمد صاحب زمانہِ طالب علمی میں ہی علم و ادب میں اپنا نام بنا چکے تھے۔ پھر بعد میں انھوں منفرد اسلوب میں نظم کی کئی کتابیں لکھیں اور اگر وہ غزل کی طرف بھی آئے تو وہاں بھی انھوں نے اپنا آپ منوایا۔ اردو اور پنجابی سٹیج ڈرامے میں بھی انھوں نے اپنا رنگ جمایا۔ پی ٹی وی کے لیے انھوں “فن کار گلی” اور “ٹوبہ ٹیک سنگھ ” جیسے شاہ کار ڈرامے انھوں نے لکھے اور ڈائریکٹ کئے۔ اسی طرح منٹو ہی کے “سو گندھی” کو ٹیلی فلم کی شکل سرمد صاحب نے دی۔

“ماہِ میر ” سی عمدہ فلم بھی انھوں نے لکھی۔ لہذا ایسے کسی ہمہ جہت فن کار کا یہ ایوارڈ قبول کرنا ایوارڈ کی عزت ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مبینہ طور پر این سی اے لاہور کے وائس چانسلر مرتضیٰ جعفری نے ان کے ساتھ ہاتھ کر دیا ۔

وہ کہانی یہ ہے کہ این سی لاہور کا پرانا نام میو سکول آف آرٹس تھا ۔ اس کے پہلے مقامی پرنسپل رام سنگھ تھے۔ مرتضیٰ جعفری نے ان پر فلم بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس فلم سکرپٹ سرمد صہبائی لکھیں گے جب کہ ایکٹنگ کے لئے امیتا بچن سے بھی بات ہورہی ہے۔ سرمد صہبائی نے یہ فلم تو لکھ دی مگر عملی طور پر یہ فلم محض اخباری خبر تک ہی محدود رہی البتہّ مرتضی جعفری نے کام یابی سے رام سنگھ ، امیتا بچن اور سرمد صہبائی کا نام استعمال کرلیا۔ سرمد صہبائی سے مزید ہاتھ یہ کیا کہ انھیں کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا اور نہ وہ معاوضہ دینے کو تیار ہیں۔

بات ہو رہی تھی قومی ایوارڈز کی تو نصرت فتح علی خان کے استاد ، فخرِ موسیقی کا خطاب پانے والے استاد غلام حیدر خان صاحب قومی سطح پر کسی ایوارڈ کی شکل میں اعترافِ فن کی حسرت لئے دنیا سے اسی سال سے زائد عمر میں رخصت ہو گئے۔ اسی طرح ایک انتہائی ذہین اور قابل موسیقار رفیق حسین ابھی ساٹھ کے پیٹے میں تھے کہ دنیا سے بغیر کسی قومی سطح کے اعترافِ فن کے ایوارڈ کے ہی چلے گئے۔ رفیق حسین بہت عمدہ ہارمونیم پلیئر تھے۔ بہت چھوٹی عمر میں انھوں نے نامور موسیقار میاں شہر یار کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا بعد ازاں عمر کا ایک طویل عرصہ انھوں نے نامور غزل سنگر غلام علی کی شاگردی میں گزارا۔ غلام علی کے ساتھ انھوں بہت سے ملکوں کے دورے بھی کئے ۔ خاص طور پر انھوں نے غلام علی کے ساتھ بھارت میں بہت کام کیا۔

سنٹرل پروڈکشن ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹوڈیوز میں ،پروڈیوسر شہوار حیدر، پرویز مہدی، رفیق حسین اور پروڈیوسر لینا مقصود

کسی حد تک وہ اپنی زندگی میں بھی اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ ان کے استاد نے اتنا کریڈٹ انھیں نہیں دیا جتنا انھوں نے کام کیا ہے۔ اس حوالے سے جب استاد غلام علی خاں صاحب سے پوچھا کہ اکثر گانے والے موسیقاروں کا نام نہیں لیتے تو انھوں نے کہا یہ تو فرض بنتا ہے کہ موسیقار کا نام لیا جائے۔ ایک یہ بھی ہے کہ اپنی کافی غزلوں کی دھنیں میں نے خود بنائی ہیں اسی طرح مہدی حسن صاحب خود اور ان کے بھائی بھی دھن بنا لیتے تھے۔ دوسرا یہ ہے کہ بعض اوقات کسی اسسٹنٹ نے کچھ طرز سیدھی کی پھر استاد نے مزید اس دھن کو نکھارا ،اور دھن کی شکل کچھ اور ہی بن گئی ۔ اس طرح دھن گانے والے استاد کے نام پر چل گئی۔

رفیق حسین اور حمیرا چنا

رفیق حسین کے بارے میں استاد غلام علی خاں صاحب نے کہا کہ وہ ابھی بچہ سا تھا تو میرے پاس آگیا اور لمبا عرصہ میرے ساتھ رہا۔ جس طرح ہم نے اپنے استادوں سے سیکھا اسی طرح اسے سکھایا۔ میرے لیے اس نے بہت سی دھنیں بنائیں۔ میں جان بوجھ کر بھی اس سے دھنیں بنواتا تھا تاکہ اس میں اعتماد آئے اور وہ اچھا کام کر سکے۔ اس نے پھر اچھا کام کیا بھی۔ پنجابی دھنیں خاص طور پر وہ بہت اچھی بناتا تھا۔ رفیق نے انڈیا میں بھی بہت کام کیا۔

رفیق حسین آشا بھونسلے کو دھن یاد کرواتے ہوئے

رفیق حسین کی بنائی ہوئی ایک غزل کی معروف دھن “روح لے گیا دل دا جانی” اصل میں غلام علی صاحب نے گائی ہے جو بعد میں جازم شرما اور فرح انور نے بھی گائی ہے جسے صرف یو ٹیوب پر 13لاکھ لوگ سُن چُکے ہیں۔

رفیق حسین کی بنائی ہوئی دھنیں غلام علی ،کویتا کرشنا مورتی،غلام عباس، حمیرا چنا،ترنم ناز،راحت فتح علی خاں،اعجاز قیصر،ہری ہرن،شازیہ منظور،سائرہ نسیم،صائمہ جہاں،افشاں،نور جہاں،حامد علی خاں،فدا حسین،پرویز مہدی،انور رفیع،فریدہ خانم،مہدی حسن،حنا نصراللہ،شنکر مہادیون اور آشا بھونسلے جیسے فن کاروں نے بھی گائیں۔
ان کی بنائی ہوئی ایک غزل کی دھن”اک میں ہوواں، اک توں ہو ویں”غلام علی اور کویتا کرشنا مورتی نے گائی ہے۔

رفیق حسین اور ہری ہرن

یو ٹیوب پر ایک ویڈیو پڑی ہوئی ہے جس میں ہری ہرن کہہ رہے ہیں کہ رفیق حسین نے تیس سال بہترین کام کیا ہے ۔ ان کی دھنیں امر ہیں جیسے

قصہ ہے مہرو وفا
کروں نہ یاد
وہی پلکوں کا جھپکنا
تمام عمر
دیارِ دل

رفیق حسین اور طبلہ نواز استاد طافو خاں

وہ مزید کہتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ میوزک کے طالب علم ان کے شان دار کام پر پی ایچ ڈیز کریں۔ ان کی دھنیں موسیقی کے نصاب کا حصہ ہونا چاہییں۔ ان کی دھنیں غلام علی صاحب نے بہت کمال گائی ہوئی ہیں۔ وہ اعلیٰ درجے کے کمپوزر تھے اور وہ اپنا الگ انداز رکھتے تھے۔ تیس سال انھوں نے بہترین کام کیا۔ ان کی دھنین بظاہر سیدھی مگر گانے میں مشکل تھیں۔

رفیق حسین اور راحت فتح علی خان

ان کے بیٹے یاسر رفیق حسین نے گلہ کیا کہ حکومتِ پاکستان نے اتنے معیاری اعلیٰ کام کے باوجود والد صاحب کو کسی قومی ایوارڈ کا مستحق نہیں جانا۔
رفیق حسین کے بیٹے کو کون سمجھائے کہ علم و فن کا اعتراف ہماری ترجیح نہیں۔ ہاں مگر کبھی کبھی ۔ یہ اور بات ہے کہ رفیق حسین یا سیّاں چوہدری جیسے فن کاروں کو ایوارڈ ملے نہ ملے لیکن ماموں کو ہو سکتا ہے صدارتی تمغہ برائے حُسنِ کارکردگی جیسا کوئی ایوارڈ مل ہی جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp