’ ‘میں آج پیشگوئی کر رہا ہوں جب بھی الیکشن ہوں گے، ان کو اندازہ ہی نہیں ان کے ساتھ ہونے کیا جارہا ہے
یہ کہنا تھا سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا۔
منگل کی شام سابق وزیراعظم عمران خان کے سٹاف نے تحریک انصاف کو کور کرنے والے صحافیوں کو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ملاقات کے لیے بنی گالا مدعو کیا۔
9 مئی کے واقعے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب عمران خان بنی گالہ اپنی رہائش گاہ میں صحافیوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
رات 9 بجے ملاقات کا وقت طے تھا۔ ملاقات سے کچھ دیر پہلے ہی ان کی رہائش گاہ پہنچے تو بنی گالہ کا ماحول ماضی سے یکسر مختلف تھا۔ عمران خان کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے کے باہر جہاں پہلے ملاقاتیوں کی گاڑیوں کی طویل قطاریں ہوا کرتی تھیں، اب وہاں صرف عمران خان کی سیکیورٹی کی گاڑیاں موجود تھیں۔
سیکیورٹی چیکنگ کے مرحلے سے گزر کر، ہم گھر کے اندر داخل ہوئے تو جہاں پہلے شہباز گل، فواد چوہدری، اعظم سواتی، شبلی فراز اور دیگر سیاسی رہنما ہوا کرتے تھے وہاں اب وکلا کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پنجوتھہ برادران، شعیب شاہین، بیرسٹر عمیر نیازی اور دیگر وکلا عمران خان کی رہائش گاہ کے صحن میں موجود تھے۔
9 مئی کے واقعے کے بعد پارٹی رہنماؤں نے علیحدگی کا اعلان تو کر دیا لیکن ماضی کی طرح اب بھی عمران خان کی پارٹی کی شمولیتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ رات بھی عمران خان نے تحریک انصاف کا جھنڈا گلے میں پہنا کر متعدد وکلا کو پارٹی میں شمولیت پر خوش آمدید کہا۔
رات 9 بجے ملاقات کا وقت طے تھا، عمران خان کی دن بھر کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے گمان تھا کہ شاید عمران خان تھکاوٹ کی وجہ سے ملاقات 15، 20 منٹ ہی رہے گی۔
سوا 9 بجے کے قریب عمران خان ہلکی نیلی شلوار قمیض پر گہرے نیلے رنگ کی واسکٹ زیب تن کیے ہوئے کمرہ میں داخل ہوئے۔ ان کے چہرے پر تھکاوٹ کے تاثرات بالکل بھی نہیں تھے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے ہاتھ نیب کے میٹنگ مینٹس لگ گئے ہیں جس میں القادر ٹرسٹ کیس کو ڈپٹی چئیرمین نیب ماضی میں ختم کر چکے ہیں۔ میں تو اب موجودہ چئیرمین نیب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کروں گا۔ اور پھر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “اللہ الحق ہے”
ملاقات کے دوران شعیب شاہین اور دیگر وکلا بھی موجود تھے، وکلا کے ساتھ توشہ خانہ کیس پر تبادلہ خیال کرنے کے بعد انہوں نے صحافیوں سے سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا۔
ماضی کے برعکس عمران خان نے اپنی سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ان سے متعدد سوالات ہوئے تو انہوں نے کہا کہ “انہیں یہ کہا جارہا ہے کہ میں آؤں گا تو پتہ نہیں کیا کر جاؤں گا، لیکن میں پہلے بھی اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کا حامی تھا۔ فوج ہمارا سب سے مضبوط ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا ’میرا مسئلہ تو جنرل باجوہ کے ساتھ تھا جو اپنی ذاتی مفادات اور کرپشن کی وجہ سے کرپٹ لوگوں کے ساتھ مل گیا اور ملک کا نقصان پہنچایا۔‘
عمران خان کی گفتگو کا سلسلہ پارٹی چھوڑنے والے ساتھی رہنماؤں سے ہوتا ہوا، ریاست مدینہ کے نظریہ اور نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم تک جا پہنچا۔
ایک گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں عمران خان نے اپنے کیسز پر کم بات کی، زیادہ گفتگو ملک کے معاشی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں تھی۔
اسے عمران خان کی خود اعتمادی کہیں یا میڈیا مینجمنٹ، ایک گھنٹے کی طویل ملاقات میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ عمران خان پر 150 سے زائد مقدمات ہیں اور وہ اپنی پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ملاقات کے دوران جب ان سے پارٹی چھوڑ جانے والوں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ عثمان بزدار اور شیریں مزاری اب بھی ان کے دل کے قریب ہیں، جبکہ پرویز خٹک کے بیانات پر وہ افسردہ نظر آئے۔ محمود خان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے وہ ایک “ڈیسنٹ” آدمی لگ رہا تھا، مجھے صدمہ ہے کہ وہ چھوڑ گیا۔ مجھے یہ امید نہیں تھی۔ شاید اس کے کچھ کیسز ’ان‘ کے ہاتھ لگ گئے ہوں گے۔
آخر میں عمران خان انتخابات کےحوالے سے پر امید نظر آئے اور انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت آنے کے بعد حالات بدل جائیں گے’ آپ لکھ لیں، میں آج پیشگوئی کر رہا ہوں جب بھی الیکشن ہوں گے، ان کو اندازہ ہی نہیں ان کے ساتھ ہونے کیا جارہا ہے‘