روس نے یوکرین پر جوہری حملے کا عندیہ دیے دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر نیٹو کی حمایت یافتہ یوکرینی افواج روس کے کسی حصے کو الگ کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو روس جوہری حملہ کرنے میں دریغ نہیں کرے گا۔
روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف جو کبھی کبھار یوکرین جنگ پر جوہری تنازع کے خدشے کا اظہار کیا کرتے تھے اب کھلم کھلا کہہ دیا ہے کہ اگر کیف کی جاری جوابی کارروائی کامیاب رہی تو ماسکو کو جوہری ہتھیار وں کا استعمال کرنا پڑے گا۔
By repelling the collective enemy’s counteroffensive, our Armed Forces are defending Russian citizens and our land. It is quite clear to all decent people.
Besides that, they are preventing global conflict.
Just imagine that the NATO-supported ukrobanderovtsy’s offensive turned…— Dmitry Medvedev (@MedvedevRussiaE) July 30, 2023
میدویدیف جو صدر ولادیمیر پیوٹن کی سربراہی میں روس کی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین بھی ہیں، نے اپنے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ اگر یوکرین کی افواج جوابی حملے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو ایسی صورت حال میں روس اپنے جوہری نظریے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائے گا۔
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’تصور کریں اگر نیٹو کا حمایت یافتہ یوکرین حملہ کامیاب رہا اور انہوں نے ہماری زمین کے ایک حصے کو چھین لیا گیا تو ہم روس کے صدر کے حکم نامے کے مطابق جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ روس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہمارے دشمنوں کو ہمارے جنگجوؤں کی کامیابی کے لیے دعا کرنی چاہییے کیوں کہ روس اس بات کو یقینی بنا نے کی کوشش کر رہا ہے کہ عالمی سطح پر جوہری آگ نہ بھڑکے۔
The NATO-Ukraine Council has been created.
By way of reminder, in 2002 the NATO-Russia Council was established. How it all ended is well known. Now the Alliance and our country are on (or rather, beyond) the brink of war.
This time, it’s going to end differently. The Council…— Dmitry Medvedev (@MedvedevRussiaE) July 12, 2023
میدویدیف، جنہوں نے یوکرین جنگ میں سب سے سخت گیر مؤقف اختیار کیا ہے، اب وہ روس کے جوہری نظریے میں تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یوکرین نیٹو کی حمایت سے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے جن پر روس نے یکطرفہ طور پر قبضہ کر کے اسے اپنا حصہ قرار دے رہا ہے، اس اقدام کی کیف اور زیادہ تر مغربی ممالک نے مذمت کی ہے۔
پیوٹن نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ حالیہ دنوں میں میدان جنگ میں کوئی سنجیدہ تبدیلی نہیں آئی ہے اور 4 جون کے بعد سے یوکرین کا بڑی مقدار میں فوجی سازوسامان تباہ ہوا ہے۔
ادھر یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کی افواج اگرچہ توقع سے کم رفتار میں ہیں لیکن علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کی اپنی مہم میں کچھ پیش رفت کر رہی ہیں۔
کریملن کے ناقدین ماضی میں میدویدیف پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ مغربی ممالک کو یوکرین کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھنے سے روکنے کی کوشش میں انتہائی سخت گیر بیانات دے رہے ہیں۔