بڑے ہو کر خلا باز بنیں گے، آنکھوں میں خواب سجائے پاکستانی بچے امریکا سے علم کا خزانہ لیے وطن لوٹ آئے۔
دی داؤد فاؤنڈیشن اور امریکی قونصل خانے کے تعاون سے کراچی کے 3 اسکولوں کے بچے ناسا بیس کیمپ امریکا سے وطن واپس پہنچ گئے۔
بچوں کے اعزاز میں دی میگنی فائی سائنس سینٹرمیں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کا مقصد بچوں کے تجربات کو سامنے لانا تھا تا کہ ملک میں تعلیم کے حوالے سے آگاہی دی جاسکے۔
تقریب کے آغاز میں داؤد فاونڈیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ ایک سال پر مشتمل سفر تھا جس کے لیے پہلے اساتذہ کو تربیت دی گئی، اساتذہ نے پھر بچوں کو تربیت دی اور 40 اسکول مدمقابل ہوئے، جن میں سے 10 اسکولوں کو شارٹ لسٹ کیا۔ بعد ازاں 3 اسکولوں کے پراجیکٹس کو اس قابل سمجھا گیا کہ ان کی بنیاد پر ان 3 اسکولوں کے 24 بچے امریکا کا سفر کر سکتے ہیں.
کراچی کے 3اسکولوں میں کے ایم اے گرلز اینڈ بوائز پرائمری اسکول، کے ایم اے بوائز سیکنڈری اسکول اور ایور گرین ایلیمنٹری اسکول سسٹم کے 24 طلبا شامل تھے جن کی عمریں 9 سے 14 سال کے درمیان تھیں۔
کے ایم اے گرلز اینڈ بوائز پرائمری اسکول کے 8 طلبا کی ٹیم نے مرغی کے پنکھ سے کاغذ بنانے کا نظریہ دیا جس کا سلوگن تھا Go green before the green goes۔ ان بچوں کے مطابق دنیا میں زیادہ تر درختوں کی کٹائی کاغذ کے لیے ہوتی ہے، اگر دیکھا جائے تو مرغی ہر ملک میں کھائی جاتی ہے اور اس کے پنکھ ضائع ہوجاتے ہیں۔ اگر ہم اسے کارآمد بنا لیں تو دنیا کے جنگلات کا زیادہ حصہ محفوظ ہوسکتا ہے۔
کے ایم اے بوائز سکینڈری اسکول کی 8 رکنی ٹیم نے پلاسٹک روڈ کا نظریہ پیش کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کراچی میں بننے والی پہلی پلاسٹک کی سڑک اسی نظریے کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ ان بچوں کی ریسرچ کے مطابق جہاں روایتی سڑک کی عمر 3 سے 5 سال ہوتی ہے وہیں پلاسٹک سے بننے والی سڑک کی عمر 50 سال تک ہوتی ہے۔ اس پراجیکٹ کی اہم بات یہ ہے کہ یہ لاکھوں ٹن کچرے کو بہترین استعمال میں لا سکتا ہے۔
ایور گرین ایلیمنٹری اسکول سسٹم کی ٹیم نے نیند سے بچاؤ کے لیے ایسا چشمہ بنایا ہے جو خاص طور پر رات کے وقت ڈرائیوروں کی نیند سے حادثات کے روک تھام کے لیے کام آسکتے ہیں۔
امریکی کونسل جنرل نیکول تھیریٹ (Niclo Theriot) کا کہنا ہے کہ ہمیں امریکا اور پاکستان کے گرین الائینس فریم ورک کی پذیرائی پر فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا مجھے یقین ہے کہ یہ بچے اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
پچوں نے اپنے اپنے دلچسپ تجربات حاضرین کے سامنے رکھے۔
ایک بچے کا کہنا تھا کہ وہاں کے کھانوں کا تجربہ کچھ اچھا نہیں تھا۔ کھانا تو بس پاکستان کا ہی اچھا ہے۔ ایک اور بچے کا کہنا تھا کہ مجھے امی بہت یاد آرہی تھیں۔ کسی بچے نے وہاں کے بچوں کو ڈانس دکھایا، کسی نے اردو بولنا سکھائی تو کسی نے تحفے تحائف بھی دیے۔
تعلیمی معیار کے حوالے سے بچوں کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت مزہ آیا۔ جو سکھایا گیا یا بتایا گیا وہ بہت اچھے سے سمجھ آیا کیوں کہ طریقہ بہت اچھا تھا۔ وہاں کے لوگوں کے حوالے سے خاص طور پر پاکستانی۔ بچوں کا کہنا تھا کہ لوگ بہت اچھے تھے اور اگر دوبارہ بھی جانے کا موقع ملا تو وہ ضرور جائیں گے۔
بچوں کے ساتھ جانے والی معلمہ قرة العین شاہد اپنا تجربہ بتاتی ہیں کہ ناسا جانے کا تجربہ یادگار رہا، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ 10دن کےاس دورے میں 3دن سفر میں گزرے جبکہ باقی کے 7 دن ہمیں بہت کچھ جانچنے اور سمجھنے کے لیے ملے۔
سینیئر صحافی ضرار کھوڑو نے وی نیوز کو بتایا کہ میں اس پراجیکٹ کو ایک سال سے دیکھ رہا ہوں، میں دنگ رہ گیا تھا کہ بچوں کا علم ایکسائٹمنٹ اور انرجی دیکھ کر۔ آج بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین اور آسمان کا فرق ہے، آپ کا دماغ کھل جاتا ہے، نئے تجربات ہوتے ہیں۔ ایک سال پہلے اور آج میں بہت فرق نظر آرہا ہے۔ بچوں میں کانفیڈینس لیول بہت بڑھ چکا ہے، سائنس صرف کتابوں میں نہیں ہے، ہر چیز میں سائنس ہے۔ ہمارے ہاں تعلیمی نظام میں خامی یہ ہے کہ ہم کتاب تک محدود رہتے ہیں، پریکٹکل سائنس و فزکس تک ہم نہیں جاتے اور ان بچوں نے وہ کردکھایا۔