محکمہ خوارک پنجاب کی جانب سے گندم کی درآمد کی منظوری کے حوالے سے وفاقی حکومت سے بات چیت جاری ہے۔ محکمہ خوراک نے 19 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی تجویز پیش کی ہے 10 لاکھ ٹن ٹریڈنگ کارپوریشن جبکہ 9 لاکھ ٹن پرائیویٹ سیکٹر کو گندم کی درآمد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے رواں برس گندم کی پیداوار کو بمپر فصل قرار دیتے ہوئے اس سال گندم کی فصل کے گزشہ برسوں کے ریکارڈ توڑنے کے دعوے کیے گئے تھے۔ وفاقی کمیٹی برائے زراعت کے اعلامیے میں رواں برس گندم کی پیداوار 2 کروڑ 68 لاکھ ٹن بتائی گئی تھی، جو گذشہ سال کی پیداوار سے 1.6 فیصد زائد ہے۔
مگر رواں برس گندم کی بمپر فصل کے باوجود بھی ملک میں آٹے کی قیمت اچانک کیوں بڑھ گئی اور مزید گندم درآمد کرنے کی نوبت کیوں آئی؟
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے چئیرمین پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب افتخار احمد مٹو نے کہا ہے کہ رواں برس ملک میں گندم کی بمپر پیداوار میں کوئی شک نہیں، جس نے گزشتہ چند سالوں کے ریکارڈ توڑے ہیں۔
’مگر ملک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ منافع خور مافیا کو گندم دی گئی جس کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ یہ سب محکمہ خوراک کی غلط پالیسیوں کی بناپر ہوا، جس کی وجہ سے رواں برس فلور ملز کو 10 لاکھ ٹن گندم کم ملی۔‘
افتخار مٹو کے مطابق گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی جلد منظوری کی صورت میں آٹے کی قیمت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اور منظوری کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ حکومت گندم روس سے درآمد کرے گی یا پھر اوپن بڈنگ کے ذریعے درآمد کی جائے گی، اس وقت پاکستان کے سوا پوری دنیا میں گندم سستی ہے۔
پاکستان عموماً کتنی گندم درآمد کرتا ہے؟
پاکستان گزشتہ چند برسوں سے گندم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 22 سے 23 لاکھ ٹن سالانہ گندم درآمد کرتا رہا ہے۔ افتخار احمد مٹو کے مطابق گندم کی پیداوار کے حساب سے اگر غلط پالیسیوں کے تحت نہ چلا جاتا تو پاکستان کو رواں برس گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
گندم کا ذخیرہ صرف دو شعبوں کے لیے ممکن ہے، ایک تو حکومت اور دوسرا فلور انڈسٹری، یا پھر گاؤں اور دیہات کے وہ لوگ جو سالانہ اپنی خوراک کا ذخیرہ کرتے ہیں مگر انہیں بھی 25 من سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے۔ ’اس بار ہر دوسرے شخص نے گندم کا ذخیرہ کیا ہے، چاہے وہ جس مرضی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اس کے پاس گندم موجود ہے۔‘
کیا آٹے کی قیمتوں میں کمی متوقع ہے؟
گندم کی درآمد کا اثر آٹے کی قیمتوں پر ضرور ہوگا اگر قیمتیں کم نہیں ہوتی تو کم از کم مزید بڑھیں گی بھی نہیں۔ مگر صرف گندم کی درآمد اس کلیہ کو طے نہیں کر سکتی ہے۔ افتخار مٹو کے مطابق گندم کی درآمد صرف آٹے کی قیمتوں کو برقرار رکھ سکے گی۔ حکومت کی جانب سے گندم کے جو ریٹ طے کیے جائیں گے وہ آٹے کہ قیمتوں میں کمی یا پھر اضافہ کا تعین کریں گے۔
’حکومت نے 40 کلو گندم 3900 روپے میں خرید کر آگے ہمیں اگر 3400 روپے میں دیتی ہے تو آٹے کی قیمتوں میں کمی ہوگی اگر وہی گندم ہمیں 4600 میں ملتی ہے تو ظاہری سی بات ہے کہ آٹے کہ قیمت مزید بڑھے گی، ورنہ قیمتیں برقرار رہیں گی۔‘
پیٹرول کی طرح آٹا بھی سستا ہوگا اور پھر ؟
اسلام آباد کے رہائشی محمد سہیل نے آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں ہرچیز کی قیمت میں دن بہ دن پھر اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اگر ایک چیز ایک دن سستی ہوتی ہے تو چند دنوں بعد اس کی قیمت میں دگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
’روسی تیل کی برآمد پر بھی کہا جاتا رہا کہ عوام کو ریلیف ملے گا۔ 15 روز قبل وزیر خزانہ نے 9 روپے پیٹرول سستا کیا اور اب دوگنا سے بھی زائد اضافہ کردیا ہے۔ 9 روپے کمی کر کے 19 روپے پیٹرول کی قیمت بڑھا دی ہے عجیب ڈرامہ ہے۔‘
محمد سہیل کے مطابق آٹے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اول تو قیمتوں میں کمی مشکل ہے اور اگر ہو بھی گئی تو وہ بھی ہمارے لیے کسی بوجھ سے کم نہیں ہوگی کیونکہ اب ہم جانتے ہیں جتنے روپے سستا ہوگا اس کے چند دن بعد دوگنا مہنگا ہو جائے گا۔‘