حکومت نے سینیٹ میں پیش کیا جانے والا ’پُر تشدد انتہا پسندی روک تھام بل 2023 ‘ اتحادیوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے شدید احتجاج کے بعد واپس لے لیا ہے۔
اتوار کو سینیٹ کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل واپس لینے کی تحریک پیش کی جس کو ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا یوں یہ متنازع بل واپس لے لیا گیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ یہ بل ڈھائی سال پرانا تھا جو گزشتہ حکومت نے تیار کیا تھا اور موجودہ کابینہ میں نہیں آیا تھا۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر یہ بل واپس لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
’ پُر تشدد انتہا پسندی روک تھام بل‘ کیا تھا؟
’ پُر تشدد انتہا پسندی روک تھام بل‘پرتشدد انتہا پسندی سے متعلق پاکستان کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا مگر اس پر کسی بھی ایوان یا کمیٹی میں بحث نہیں ہوئی۔ اس بل کے متن کی بیشتر شقیں وہی ہیں جو اس سے قبل ملک میں بنے کئی قوانین، ایکٹس اور بلز کا حصہ رہی ہیں۔
اس سے قبل پاکستان میں نیکٹا ایکٹ، انسداد دہشت گردی ایکٹ، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ، بینکنگ کمپنیز ایکٹ، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ وغیرہ جیسے متعدد قوانین پہلے سے لاگو ہیں جو ان ہی تمام معاملات کو دیکھتے ہیں جن کا ذکر اس نئے بل میں کیا گیا تھا۔
پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق اس مجوزہ بل کے مطابق ’پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے جرمانہ ہو نا تھا جبکہ تنظیم کو تحلیل کیے جانے کی تجویز تھی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جانا تھا۔‘
مجوزہ بل کے متن کے مطابق’جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی جائیداد اور اثاثے ضبط کیے جانے کی تجویز تھی جب کہ تشدد کی معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی تھی۔‘ بل کے تحت ’جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی تھی۔‘
واضح رہے کہ مجوزہ بل کے متن میں کہا گیا تھا کہ ’پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیدارن اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا جبکہ حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘