احتساب عدالت اسلام آباد نے 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس اور توشہ خانہ انکوائری کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ضمانت خارج کردی۔
احتساب عدالت اسلام آباد نے اٹک جیل میں قید چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی توشہ خانہ انکوائری کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں بھی عمران خان کی ضمانت پر فیصلہ سنا دیا، عدالت نے توشہ خانہ انکوائری اور 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کیس میں عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری خارج کر دی۔
عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کی اہلیہ بشری بی بی کی عبوری ضمانت کی درخواست بھی نمٹا دی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب کے بشری بی بی کی گرفتاری کے آرڈر نہ ہونے کے بیان پر ضمانت کی درخواست غیر موثر ہوگئی۔
واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو 9 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے انہیں ضمانت دے دی تھی جس پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
القادر ٹرسٹ کیا ہے؟
نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے 3 دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر 2 پر فیصلہ کیا۔‘
نوٹس کے مطابق مذکورہ کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر 2 کا عنوان تھا ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ۔‘
اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا اور بریفنگ دی اور کابینہ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔ نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض بھی طلب کیا گیا تھا
این سی اے کی رقم ملک ریاض کو کیسے واپس ملی؟
تفصیلات کے مطابق 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے ایک تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔
این سی اے نے بتایا تھا کہ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔
تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کررہے ہیں۔
اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔
اس حوالے سے 2019 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔
ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی رازداری میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاستِ پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
اس حوالے سے اس وقت ٹویٹر پر اپنے موقف میں ملک ریاض نے کہا تھا کہ کچھ عادی ناقدین این سی اے کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی اور ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا۔‘
القادر ٹرسٹ کیس کس مرحلے پر ہے؟
گزشتہ دنوں نیب نے اس کیس میں انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا تھا۔ یہ نیب کی تحقیقات کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے جس میں گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔
اس سے قبل نیب القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال، کرپٹ پریکٹیسز اور برطانیہ سے موصول ہونے والی جرائم کی رقم کی وصولی میں اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کی انکوائری کررہا تھا۔ انکوائری کے بعد نیب کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اس انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کرنے کے لیے مناسب مواد مل گیا۔
نیب میں جب کوئی کیس بنتا ہے تو وہ عموماً 4 مراحل سے گزرتا ہے جس میں سب سے پہلا مرحلہ شکایت کی تصدیق ہوتا ہے جس میں چھان بین کی جاتی ہے۔ اگر تصدیق کے عمل میں کچھ کامیابی ملتی ہے تو اگلے مرحلے میں انکوائری کا آغاز کیا جاتا ہے ۔
انکوائری کے بعد اگر تحقیقات آگے بڑھانے کے لیے ثبوت مل جائے تو اس انکوائری کو اگلے مرحلے میں انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا جاتا ہے جس کے بعد نیب عدالت میں ریفرنس فائل کیا جاتا ہے۔ نیب نے ماضی میں انکوائری کے مرحلے میں بھی سیاسی اور دیگر افراد کے خلاف گرفتاریاں کی ہیں۔
نیب کا کیا موقف ہے؟
نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے غیر قانونی حصول اور تعمیرات سے متعلق ہے جس میں نیشنل کرائم ایجنسی، یو کے کے ذریعے بنیادی رقم (190 ملین برطانوی پاؤنڈز) کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ شامل ہے۔
نیب کی جانب سے کی گئی انکوائری اور تفتیش کے قانونی طریقہ کار کو پورا کرنے کے بعد گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔
انکوائری کے عمل کے دوران سابق وزیرِاعظم اور ان کی اہلیہ کو متعدد طلبی کے نوٹس جاری کیے گئے جو دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز تھے۔ سابق وزیرِاعظم یا ان کی اہلیہ کی طرف سے کسی بھی نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا۔
نیب کے مطابق سابق معاون خصوصی برائے وزیرِاعظم شہزاد اکبر مذکورہ کیس میں ملوث کلیدی شخص تھے۔ وہ اور سابق وزیرِاعظم تصفیہ معاہدے سے متعلق حقائق، دستاویزات کو چھپا کر اپنی کابینہ کو گمراہ کرتے رہے۔
رقم تصفیہ کے معاہدے (190 ملین برطانوی پاؤنڈز) کے تحت موصول ہوئی تھی اور قومی خزانے میں جمع ہونی تھی مگر اس کے برعکس رقم کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں ایڈجسٹ کیا گیا جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 460 ارب روپے کی ادائیگی کے منصوبے کے خلاف نمٹا دیا۔
نیب کے مطابق مفرور عمران خان کے سابق مشیر شہزاد اکبر کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔