شیر بھوکا تھا شکار کرنا چاہتا تھا مگر بادشاہ سلامت کی روایتی سستی آڑے آرہی تھی۔ اس نے بکری اور کتے کو ساتھ ملایا اوران سے شکار کروالیا، شکار کرنے کے بعد شیر نے بکری سے کہا اس کے تین حصے کردو بکری نے بڑی باریکی اور انصاف کے ساتھ شکار کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا اور شاباش کی منتظر نگاہوں کے ساتھ شیر کی طرف دیکھنے لگی، شیر غصے سے غرایا اور بکری کو ہی کھا گیا۔ اس کام سے فارغ ہوکر شیر نے کتے کی طرف دیکھا اور اس سے کہا اس شکار کے دو حصے کردو۔ اب کتے نے کیا کیا۔
یہ جاننے سے پہلے صرف اتنا بتائیں کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہم اپنی اکثر مثالیں جنگل سے ہی کیوں لیتے ہیں۔ ہمارے اکثر محاورے بھی جنگل اور جنگلی جانوروں سے ہی منسوب ہیں۔ بندر کے ہاتھ میں استرا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، آستین کا سانپ، کسی کو برا بھلا کہنا ہو تو الو، گدھے جیسے جانوروں سے تشبیہ دے دی۔ حسن کی تعریف کرنی ہو تب بھی جنگلی مخلوق سے ملادیا، کوئل سی بولی، ہرنی جیسی چال وغیرہ وغیرہ، کسی کو بہادری ظاہر کرنا ہو تو شیر، چیتا کہہ دیا، بزدل کو گیدڑ، چالاک کو لومڑی سے جا ملایا۔
یعنی انسانوں کی اچھی بری خصلتیں جنگلی جانوروں سے ہی جوڑ دی جاتی ہیں، جنگل کو دیکھیں تو وہاں کی بھی اپنی الگ ہی دنیا ہے۔ یہاں کا بادشاہ شیر ہے۔ لیکن یہ تو ہم سمجھتے ہیں ناں، کیا واقعی شیر جنگل کا راجا ہے اور ہے تو کیوں؟ کس نے اسے اس منصب پر فائز کیا ؟ کیا جنگل میں بھی موروثیت ہے کہ شیر ابن شیر این شیر ہی راج کریں گے۔
کبھی آپ نے سوچا جنگل کا سب سے بڑا جانور ظرافہ یا ہاتھی ہے، سب سے پھرتیلا ہرن سمجھا جاتا ہے، سب سے چالاک لومڑی کو کہا جاتا ہے، محنتی گدھا ہوسکتا ہے، شیر میں تو ایسی کوئی ایک بھی خوبی نہیں تو پھر؟ شاید شیر نے جو اپنی ایک وحشت یا دہشت بنا رکھی ہے وہی دوسروں کو اسے بادشاہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے لیکن جب دوسرے جانور ایک گروہ کی صورت میں آجائیں تو یہی بادشاہ سلامت وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
جنگل میں شیر سے کہیں زیادہ خواص رکھنے والے جانور موجود ہیں۔ لیکن انہیں اپنی اس طاقت کا احساس ہی نہیں ہوپاتا اور وہ اپنے بچاو اور زندہ رہنے کی جدوجہد میں ہی عمرگزار دیتے ہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جو جہاں طاقتور وہ وہاں کا بادشاہ، جہاں جس کو موقع ملے وہ دوسرے کا شکار کرلیتا ہے۔اور یہی طاقت اور بقا کا قانون دراصل جنگل کا قانون ہے اور دنیا کے جنگل کا قانون بھی، انسانوں کی دنیا میں جہاں طاقت کا راج ہو وہ بھِی تو جنگل ہی ہوا، یہ قانون تحریری ہے نہ اعلانیہ بلکہ نفسیاتی طور پر نافذ العمل ہوتا ہے اور زہنی طور پر طاقتور کی برتری کو تسلیم کرلیا جاتا ہے اور خود کو کمزور اور کمتر، انسان جس خطے میں بھی ہیں انہوں نے وہاں اپنے قوانین بنا رکھے ہیں یہ قوانین بظاہر بہت پرکشش، سب کے لئے برابری کی بات کرنیوالے، معصوم کے تحفظ اور مجرم کو شکنجے میں لانے والے، لیکن کہیں اس پر طاقت کی نفسیاتی برتری تسلیم کر لی جاتی ہے تو کہیں قانون کو ہی طاقت ور مانا جاتا ہے اور یوں دنیا مہذب اور غیر مہذب، ناکام اور کامیاب، پسماندہ اور ترقی یافتہ میں تقسیم ہوتی ہے اور یہ قانون کا شعور ہی ہے جو جانوروں اور انسانوں کی دنیا میں تمیز کا باعث بن سکتا ہے اور اگر قانون اور شعور کو نکال دیا جائے تو جنگل کی دنیا اور انسانوں کے جنگل میں فرق صرف طرز رہائش اور آسائشوں کا ہی بچ جاتا ہے۔ جنگل اور انسانوں کی ان باتوں میں تو وہ کہانی رہ ہی گئی
جہاں شیر نے بکری کو کھا جانے کے بعد کتے کو شکار کے حصے کرنے کا کہا تو پھرہوا کچھ یوں کہ کتا چونکہ بکری کا انجام دیکھ چکا تھا۔ اس لئے اس نے خاموشی کے ساتھ بغیر کسی چوں چراں کے سارا شکار شیر کے سامنے کردیا اور خود ایک جانب بیٹھ کر بکری کی بچی ہوئی ہڈیاں کھانے لگا شیر نے قہقہ لگایا اور بولا واہ۔ وفاداری ہو تو کتے جیسی، یوں بادشاہ سلامت نے کتے کو وفاداری کا سر ٹیفیکیٹ عنایت کر کے شکار کے بھرپور مزے اڑائے اور چلتے بنے، انسانوں کی دنیا میں بھی ہمیشہ سے کتے کی وفاداری کے چرچے ہیں لیکن شاید کتے کی اس وفاداری کے پیچھے وہی خوف ہے جو اس نے بکری کے انجام کا دیکھا اور اس کے بعد کتے کی نسلوں میں یہ پیغام چلا گیا کہ جو مالک ہے اس سے ہر حال میں وفاداری دکھانی ہے کیوںکہ وفاداری میں ہی اس کی جان کی ضمانت ہے تو آخر میں یہ بات زہن نشین کرلیں کہ یہ کہانی جنگل کی دنیا کی ہے، اسے اپنی دنیا میں رہنے والوں سے کسی بھی طرح منسوب کررہے ہیں تو آپ کی اپنی مرضی ہے اور اپنی کی ذمہ داری