نگران حکومت کے آتے ہی عوام کو ایک اور بڑا سرپرائز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں گزشتہ شب ملا جب عوام پر ایک اور پیٹرول بم گراتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 20 روپے تک اضافہ کردیا۔
وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 17 روپے 50 پیسے فی لیٹر جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 20 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
پیٹرول کی نئی قیمت 290 روپے 45 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 293 روپے 40 پیسے فی لیٹر مقرر ہوگئی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اثر بلوچستان میں فروخت ہونے والے اسمگل شدہ ایرانی پیٹرول پر بھی پڑتا ہے؟
مزید پڑھیں
اس حوالے سے ایرانی پیٹرول کے کاروبار سے منسلک شہری محمد احمد نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ایرانی اسمگل شدہ پیٹرول کا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔
’دراصل ایرانی پیٹرول ذخیرہ کرنے والے افراد اس کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں جب کہ مارکیٹ میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ایرانی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان پیٹرول میں اضافے کے تناسب سے ہی بڑھایا جائے گا۔‘
محمد احمد کے مطابق پاکستانی پیٹرول کی قیمت میں 17.50 روپے فی لیٹر اضافہ کے ساتھ ہی ایرانی پیٹرول میں بھی 10 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس حالیہ اضافے کے بعد ایرانی پیٹرول 235 روپے فی لیٹر میں فروخت کیا جارہا ہے۔
کوئٹہ کے شہری خالد گجر نے وی نیوز کو بتایا کہ ایرانی پیٹرول کی موجودگی عوام کے لیے کسی حد تک ریلیف تو ہے لیکن جب سے سندھ اور پنجاب کے کاروباری افراد ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہوئے ہیں تب سے ایرانی پیٹرول کی قیمتیں بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔
’ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘