کچھ روز قبل پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے جاری کردہ ایک پبلک نوٹس میں اطلاع دی گئی کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتسان میں بھی ڈربز کے سسٹم کو لانچ کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کسٹم ڈیوٹی ادا نہ کرنے والے ایسے تمام موبائل فونز جو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں آپریٹ ہو رہے ہیں ان پر کسی بھی مقامی موبائل نیٹ ورک کی سم استعمال نہیں ہو سکے گی۔ سوشل میڈیا پر ’ایس کام‘ کی موبائل سروس استعمال کرنے والے کئی آئی فون صارفین اس حوالے سے تشویش کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا موبائل فون یکم ستمبر کے بعد کام نہیں کرے گا۔
نان پی ٹی اے موبائل فونز اور ایس کام کا معاملہ کیا ہے؟
جنوری 2019 میں پی ٹی اے نے ایسے تمام موبائل فونز کو بلاک کرنے کا اعلان کیا تھا جنہیں پاکستان لاتے ہوئے ان پر ٹیکس نہیں ادا کیا گیا۔ اس سلسلے میں پی ٹی اے نے ڈیوائس آئینڈنٹی فکیشن رجسٹریشن اور بلاکنگ سسٹم (ڈربز) کے نام سے ایک سسٹم لانچ کیا تھا جس کے تحت ضروری تھا کہ پاکستان میں استعمال ہونے والی تمام موبائل ڈیوائسز پی ٹی اے سے رجسٹرڈ ہوں۔ یوں کسٹم ڈیوٹی ادا نہ کرنے والے تمام موبائل فونز جب اس نظام میں رجسٹر کیے جاتے تھے تو انہیں پہلے ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ پی ٹی اے کے ایک ذریعے کے مطابق آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں آپریٹ ہونے والے ایس کام نامی موبائل آپریٹر کی سروسز چونکہ باقی موبائل آپریٹرز کی طرح ملک بھر میں نہیں ہوتی تھیں اس لیے اسے ’ڈربز‘ نامی سسٹم کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔
تاہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے موبائل فون صارفین اپنے نان پی ٹی اے فون میں ایس کام کی سم استعمال کرتے رہے ہیں جس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوتا تھا۔ اب اس حوالے سے پی ٹی اے نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایس کام کی سیلولر سروس استعمال کرنے والے موبائل فونز کو بھی ’ڈربز‘ کے سسٹم کا حصہ بنا رہا ہے۔
یکم ستمبر کے بعد ایس کام کی سم والے نان پی ٹی اے فونز بند نہیں ہوں گے؟
ترجمان پی ٹی اے کے مطابق تمام موبائل فونز جوپی ٹی اے سے رجسٹرڈ نہیں ہیں انہیں موبائل میں موجود ایس کام کی سم پر یکم ستمبر تک رجسٹرڈ کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جنوری 2019 میں پی ٹی اے کے موجودہ نظام ’ڈربز‘ کا آغاز کیا گیا تو اس سے قبل ملک بھر میں موجود تمام موبائل ڈیوائسز کو اس وقت ان کے موبائل نمبر کے ساتھ منسلک کر دیا گیاتھا۔ البتہ 15 جنوری 2019 کے بعد ملک میں آنے والی موبائل ڈیوائسز کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے موبائل کے حساب سےکسٹم ڈیوٹی ادا کرکے اسے پی ٹی اے سے رجسٹر کرائیں۔ ماضی کے اس طریقہ کار کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ تمام صارفین جو اس وقت اپنی نان پی ٹی اے موبائل ڈیوائس میں ایس کام کی سم استعمال کر رہے تھے انہیں یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ یکم ستمبر کے بعد بھی اپنی موبائل ڈیوائسز کو ایف بی آر کا ٹیکس دیے بغیر استعمال کرتے رہیں گے۔
پی ٹی اے حکام کے بقول ایسا نہیں ہے کہ ایس کام کی سم والا موبائل فون کام کرنا چھوڑ دے گا بلکہ وہ تمام موبائل فون جو یکم ستمبر تک ایکٹیو ہیں انہیں اس میں موجود ایس کام کی سم میں خود کار طریقے سے منسلک کر دیا جائے گا اور یہ یکم ستمبر کے بعد بھی کام کرتے رہیں گے۔ صارفین کو چاہیے کہ وہ پی ٹی اے کی ویب سائٹ سے یہ کنفرم کر لیں کہ ان کی موبائل ڈیوائس کو اس میں موجود ایس کام کی سم پر رجسٹرڈ کر دیا گیا ہے۔ اگر پی ٹی اے کی ویب سائٹ یا *8484#پر اپنا آئی ایم ای آئی نمبر بھیجنے کے بعد صارف کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا موبائل اب تک پی ٹی اے کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہوا تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے موبائل فون آپریٹر ایس کام کے ذریعے اسے رجسٹر کرا لیں۔
پی ٹی اے کے مطابق ایس کام یکم ستمبر تک صارفین کی رجسٹریشن مفت میں کریں گے۔ البتہ یکم ستمبر کے بعد ملک میں آنے والی موبائل ڈیوائسز میں جس بھی نیٹ ورک (چاہے ایس کام یا کسی اور ٹیلی کام آپریٹر) کی سم ڈالی جائے وہ اسے پی ٹی اے سے رجسٹر کرانے کے بعد ہی استعمال کر سکیں گے۔
ایس کام مفت میں رجسٹریشن نہیں کر رہا؟
آزادکشمیر کے رہائشی رضوان یوسف ایک عرصے سے اپنے نان پی ٹی اے فون میں ایس کام کی سم استعمال کر رہے تھے۔ یہ جاننے کے لیے کہ کیا ان کا فون رجسٹرڈ ہو گیا ہے جب انہوں نے ایس کام سروس سینٹر کا دورہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ اس کے لیے انہیں 5 ہزار روپے میں ای سم خریدنا ہوگی۔ اس بات کی تصدیق کے لیے جب ہم نے ایس کام کی ہیلپ لائن پر رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ‘نان پی ٹی اے فون میں ایس کام کی سم چلانے کے لیے یکم ستمبر تک ہماری ای سم خریدنا لازمی ہے، جس کی مالیت 5 ہزار روپے ہے اور یہ ای سم ایک برس تک کام کرتی رہے گی’۔ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اگلے برس ای سم کی مد میں 5 ہزار روپے ادا کرنے کے بعد یہ مزید ایک سال کے لیے استعمال میں لائی جا سکے گی۔
ایس کام کہاں کام کرتا ہے؟
1976 میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے سرکاری دورے پر گئے تو وہاں ٹیلی فون سروس نہیں تھی۔ انہوں نے خود کو دنیا سے کٹا ہوا محسوس کیا، اس لیے واپسی پر انہوں نے اس سلسلے میں پاک فوج سے مدد طلب کی۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت ایک پبلک سیکٹر آرگنائزیشن کا ادارہ اسپیشل کمیونی کیشن آرگنائزیشن یعنی ایس سی او قائم کیا گیا جو کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ٹیلی کمیونی کیشن کا نظام چلانے کا ذمہ دار تھا۔
نوے اور 2000 کی دہائی میں پاکستان میں موبائل ٹیلی کام آپریٹرز نے کام شروع کیا تو سال 2004 میں ایس سی او نے جی ایس ایم سروس کے آغاز کا اعلان کیا۔ ایس کام کے نام سے موبائل فون سروس کا کوڈ 0355 سے شروع ہوتا ہے اور یہ اس وقت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کام کر رہی ہے۔
کیا موبائل رجسٹریشن کی فیس پی ٹی اے کو جاتی ہے؟
ترجمان پی ٹی اے کے مطابق موبائل فون کے پاکستان لانے پر کسٹم ڈیوٹی وصول کی جاتی ہےاور جن موبائل فونز پر ٹیکس کی رقم ایف بی آر کو ادا نہ کی گئی ہو تو اس کی نشاندہی پی ٹی اے کرتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ موبائل فون پی ٹی اے کی جانب سے بلاک کیا جاتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ٹیکس کی رقم پی ٹی اے کو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ موبائل فون پر حکومت پاکستان کی جانب سے عائد کردہ ٹیکسز ہیں جنہیں ایف بی آر وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کراتا ہے۔