بلوچستان ہائیکورٹ میں نگران کابینہ کے وزراء اور مشیروں کی شمولیت چیلنج کر دی گئی ہے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس گل حسن ترین پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ نگران کابینہ سیاسی سزا یافتہ اور غیر مقامی افراد پر مشتمل ہے جو خلاف قانون ہے، بلوچستان میں نگران نہیں بلکہ سیاسی حکومت قائم کی گئی ہے۔
درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ نگران وزیر تعلیم قادر بخش بلوچ حلف اٹھانے سے قبل تک چاکر یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، نگران وزیر قادر بخش کی مستقل رہائش ضلع ڈیرہ غازی کی ہے، الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں قادر بخش کا ریکارڈ پشاور کا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر قادر بخش بلوچ کو مردان یونیورسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں پر سزا ہوچکی ہے، قادر بلوچ کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 63(1)(K) کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
مشیر خاتون شانیہ خان بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کی کوآرڈینیٹر رہی ہیں، شانیہ خان کو 23 نومبر 2022 کو وزیراعلیٰ کی کوآرڈینیٹر برائے ایس اینڈ جی ڈی مقرر کیا گیا تھا، مشیر شانیہ خان کو 9 اگست 2023 کو ہائیکورٹ کے فیصلے میں دیگر کوآرڈینیٹرز کے ساتھ برطرف کیا گیا تھا، ہائیکورٹ کے فیصلے کے 10 روز بعد 21 اگست کو شانیہ خان نگران مشیر بنا دیا گیا، ان کی موجودگی میں شفاف الیکشن کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں
نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی سب پر عیاں ہے، نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی ٹی وی چینلز پر مختلف جماعتوں کا دفاع کرتے رہے ہیں اور برطانوی شہری ہیں۔
نگراں وزیر داخلہ کیپٹن ریٹائرڈ زبیر جمالی موجودہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان جمالی کے قریبی عزیز ہیں، الیکشن ایکٹ 2017 میں واضع ہے وہ شخص وفاقی و صوبائی پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا جو آئین پاکستان کے آرٹیکلز 62,63 پر پورا نہ اترتا ہو۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ موجودہ نگران کابینہ میں موجود وزراء اور مشیر آئین پاکستان کے مختلف آرٹیکلز پر پورا نہیں اترتے، نگران وزراء کی وجہ سے الیکشن متنازع ہوگا عدالت آنیوالے انتخابات کو متنازع ہونے سے بچائے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹسز جاری اور جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 30 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔