سقوط کابل اور غنی انتظامیہ کی غلط فہمیاں

جمعرات 31 اگست 2023
author image

اصغر خان عسکری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اگست 2023 کے اختتام پر افغانستان سے امریکی فوج کے آخری سپاہی کے انخلا کو 2 برس بیت چکے ہیں لیکن پوری دنیا اب بھی حیران ہے کہ اگست2021 ء میں کیا ہوا تھا۔ اگست 2021 کے وسط میں افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان بغیر لڑائی اور خون خرابے کے کیسے قابض ہو ئے؟ دنیا اگرچہ اس کے اسباب اور وجوہات میں سے کئی ایک پر اتفاق کر چکی ہے لیکن پھر بھی کچھ پہلو تشنہ ہیں۔ آخر جدید امریکی اسلحے سے لیس افغان فوج طالبان کے سامنے مزاحمت نہ کرسکی؟ عالمی برادری اس سوال کا جواب بھی تلاش کر رہی ہے کہ آخر کیوں سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو کابل چھوڑنا پڑا؟

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی اور امریکا کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلا پر سابق صدر اشرف غنی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ سابق افغان صدر محل سے فرار ہونے سے قبل تک اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ واشنگٹن، کابل سے مکمل انخلا نہیں کر ے گا۔ امریکا نے ان کو یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی فضائیہ مدد کے لئے موجود رہے گی۔

امریکا نے افغانستان سے جیسے ہی فوجی انخلاء کا عمل شروع کیا اور طالبان نے قندوز اور ہلمند پر قبضہ کرلیا تو انھوں نے سابق صدر غنی کو تسلی دینے کے لئے ایک دو دن وہاں بمباری بھی کی لیکن اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔ قندوز اور ہلمند میں طالبان پر بمباری سے سابق صدر کا یقین اور بھی پختہ ہوگیا تھا کہ واشنگٹن اب مکمل فوجی انخلا نہیں کرے گا۔

سابق صدر ڈاکٹر غنی کو ان کے مشیروں نے یہ یقین دلایا تھا اور وہ خود بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ امریکی فوجی انخلا کے بعداگر طالبان ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کو بڑے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن پورے ملک میں کہیں سے بھی طالبان کو عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حالانکہ ابتدائی دنوں میں چند خواتین نے احتجاج کیا۔ عالمی پریس نے ان کو نمایاں جگہ بھی دی تھی، لیکن بعد میں وہ بھی خاموش ہو گئیں۔

سابق صدر اشرف غنی کو ان کے وزیروں اور مشیروں نے یہ بھی پٹی پڑھائی تھی کہ قندھار پر طالبان کا قبضہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، اس لئے کہ سابق کمانڈر جنرل رازق مرحوم کا خاندان بھر پور مزاحمت کرے گا۔ یہاں بھی سابق صدر ڈاکٹر غنی کے وزیروں اور مشیروں کے تمام اندازے غلط نکلے۔

جنرل رازق مرحوم کے خاندان نے طالبان کے سامنے مزاحمت نہیں کی اور یوں قندھار بھی بغیر کسی لڑائی اور خون خرابے کے فتح ہو ا۔ یہی موقع تھا کہ سابق صدر اپنی رائے سے رجوع کرتے لیکن وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہنوز دلی دور است۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ جنرل رشید دوستم اور اسماعیل خان سے انھوں نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ جنرل دوستم اور اسماعیل خان نے بھی سابق صدر اشرف غنی کو یقین دلایا تھا کہ طالبان مزارشریف اور ہرات کو فتح نہیں کر سکیں گے، لیکن دوستم اور اسماعیل خان دونوں نے ان کو دغا دیا ۔

جنرل رشید دوستم نے بغیر لڑے مزار شریف کو طالبان کے لئے خالی کر دیا۔ اسماعیل خان کے بارے میں بھی بانت بانت کی بولیاں بولی گئیں۔ ان کو شیر ہرات کا خطاب دیا گیا۔ بین الاقوامی پریس نے ان کے انٹرویو شائع کئے، لیکن وہ بھی چند دن تک طالبان کا مقابلہ کر سکے۔ یہ ایک اور موقع تھا کہ سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنے موقف پر نظر ثانی کرتے لیکن ان کو جن وزیروں اور مشیروں نے گھیر رکھا تھا وہ اب بھی ان کو باور کرا رہے تھے کہ طالبان کا افغانستان پر قبضہ کرنا ایک دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے حقیقت ہر گز نہیں۔

اس لئے کہ عوامی مزاحمت ہو گی، امریکا بھرپور جواب دے گا۔ افغان نیشنل آرمی اس قابل ہے کہ طالبان کا مقابلہ کر سکے۔ ایک طرف اگر چہ سابق صدر اشرف غنی کے صلاح کار ان کو ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے تھے تو دوسری طرف امریکا نے رات کے اندھیرے میں بگرام ائیر بیس خالی کر دیا۔ بگرام ائیر بیس کو افغان حکام کو بتا ئے بغیر خالی کرنے سے نقصان یہ ہوا کہ افغان نیشنل آرمی اور وہ چند لوگ جو طالبان کے خلاف ممکنہ طور پر مزاحمت کر سکتے تھے وہ بھی مایوس ہو گئے۔اب ان کو یقین ہو گیا تھا کہ امریکا افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کر رہا ہے جبکہ ان کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

بگرام ائیر بیس کو اچانک خالی کرنے کے بعد سابق صدراشرف غنی کے پاس ایک اور موقع تھا لیکن وہ خود اور ان کے وزیر اور مشیر اب بھی اس انتظار میں تھے کہ امریکا ان کو تنہا نہیں چھوڑے گا لیکن امریکا چونکہ مکمل انخلا کا فیصلہ کر چکا تھا جبکہ سابق صدر اشرف غنی اور ان کی انتظامیہ کو اس منصوبے سے مکمل طور پر لاعلم رکھا گیا تھا اس لئے وہ آخر تک اس انتظار میں تھے کہ واشنگٹن ان کو بچانے کی کوشش ضرور کرے گا لیکن ان کی یہ امید بر نہ آئی اور 15 اگست کو طالبان بغیر خون خرابے اور لڑائی کے کابل میں داخل ہوئے۔

جبکہ اشرف غنی اپنے وزیروں اور مشیر وں سمیت ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکا نے پیچھے بچ جانے والوں کے انخلا کے لیے آپریشن جاری رکھا لیکن حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کابل سے کچھ انتہائی شرمناک مناظر بھی دیکھنے کو ملے جب لوگوں نے جہاز کے پہیوں اور چھت پر سوار ہو کر بیرون ملک جانے کی کوشش کی۔ آخری امریکی فوجی نے 30 اگست رات 12 بجے سے ایک منٹ قبل امریکی طیارے کے ذریعے ائیرپورٹ سے اُڑان بھری اور یوں ایک طویل فوجی آپریشن اپنے انجام کو پہنچا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صحافی اور کالم نگار، الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp