پاکستان اور سعوی عرب کے درمیان طویل عرصے سے برادرانہ مراسم قائم ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد 1951 میں ہونے والا معاہدہ بنا۔ سعودی عرب نے 1965 اور1971 کی جنگوں کےعلاوہ سابق سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت کے وقت بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نےایک سال تک پاکستان کو 50 ہزار بیرل یومیہ تیل ادھار پر فراہم کیا۔
2005 کے تباہ کن زلزلے،2010 اور 2011 کے سیلاب کے وقت بھی سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپورمالی مدد کی۔ براہ راست مالی امداد کےعلاوہ سعودی عرب نے پاکستان میں انفراسٹرکچر، صحت اور تعلیم سمیت فلاحی شعبوں میں متعدد منصوبے مکمل کیے۔
سعودی عرب کا شماران چند ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی بلکہ پاک بھارت جنگوں میں پاکستان کی باقاعدہ مدد بھی کی ہے۔
سعودی عرب کے مقبول ترین بادشاہ ، شاہ فیصل کے دور میں پاک سعودی تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔
اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام شاہ فیصل ہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ بھی انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔
اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام شاہ فیصل ٹاؤن ہے۔ صرف کراچی نہیں بلکہ پاکستان کا کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جہاں شاہ فیصل سے کچھ نہ کچھ منسوب نہ ہو۔
مزید پڑھیں
سنہ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔
شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب میں پاکستان کی مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی کردار ادا کیا، جبکہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب میں بھی سعودی عرب کی جانب سے خطیر امداد بھجوائی گئی۔
سعودی عرب کی بھرپور حمایت اور کوشش سے پاکستان نے سنہ 1974 میں او آئی سی کے دوسرے اجلاس کی لاہور میں میزبانی کی۔
سویت یونین نے جب افغانستان میں جنگ چھیڑی تو پناہ گزینوں کا سیلاب پاکستان میں امڈ آیا۔ سعودی عرب نے ان پناہ گزینوں کی معاونت کے لیے بھرپور مالی امداد فراہم کی۔
جب پاکستان نے 90 کی دہائی کے آخری برسوں میں ایٹمی دھماکے کیے تو سعودی عرب سفارتی میدان میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا اور ساتھ ہی ساتھ مالی امداد بھی جاری رکھی۔ ایک سال تک 50 ہزار بیرل یومیہ تیل موخر ادائیگی کی بنیاد پر دیا گیا۔
پاکستان کے لیے ترسیلات کے اعتبار سے سعودی عرب سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان کو بیرون ملک سے ملنے والی ترسیالت زر آج بھی سب سے زیادہ سعودی عرب سے آ رہی ہیں۔