جی20 اجلاس کا آغاز، کون سے اہم معاملات زیر غور ہیں؟

ہفتہ 9 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں پر مشتمل اتحاد جی 20 کے سربراہان کا سالانہ اجلاس بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں جاری ہے، جہاں رکن ممالک کے سربراہوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عالمی اقتصادی سست روی، عالمی حدت سمیت عالمی جنوب کے ممالک کی بہتری کے لیے کثیرالجہتی ترقیاتی بینکوں میں اصلاحات جیسے کئی اہم عالمی مسائل پر غور کریں گے۔

وائس آف امریکا کے مطابق اس سربراہ اجلاس میں افریقی یونین کو جی 20 تنظیم کا مستقل رکن بننے کے لیے باضابطہ طور پر مدعو کرنے کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ جی 20 میں  اس وقت 19 ممالک اور یورپی یونین شامل ہیں۔

2023ء کے جی 20 سربراہی اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی غیر موجودگی قابل ذکر ہے۔ صدر پیوٹن گزشتہ سال انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔ وہ شاذ و نادر ہی بیرون ملک سفر کرتے ہیں کیونکہ یوکرین کی جانب سے جنگی جرائم کے الزامات لگائے جانے کے بعد عالمی فوجداری عدالت نے ان کے خلاف فرد جرم عائد کی تھی۔

البتہ چینی صدر کی جگہ ان کے وزیراعظم لی کیانگ اور روسی صدر کی جگہ وزیر خارجہ سرگئی لاوروف جی 20 اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

جی  20 اجلاس  کا اختتام روایتی طور پر رہنماؤں کے مشترکہ اعلامیے پر اتفاق کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس اجلاس سے پہلے ہی اس بیان پر بات چیت شروع ہو گئی تھی اور جمعہ کو بھارت کے چیف مذاکرات کار امیتابھ کانت نے کہا تھا کہ اعلامیہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔

عالمی میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق اعلامیے میں یوکرین جنگ سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں مخصوص لہجہ ایک اہم رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جی 20 کے بہت سے ارکان یوکرین کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ گروپ روس کے اقدامات کی پرزور مذمت کرے۔

تاہم روس اس طرح کے الفاظ سے اتفاق نہیں کرے گا اور چین سمیت دیگر ممالک جو روس کو خاموش حمایت کی پیشکش کر چکے ہیں، ان کا بھی اعلامیے پر دستخط کرنے کا امکان نہیں ہے۔

گزشتہ برس بالی میں منعقدہ جی 20 اجلاس میں مشترکہ اعلامیے میں بیشتر اراکین نے یوکرین میں روس کے اقدامات کی مذمت کی تھی لیکن باقی ممالک میں اختلاف رائے موجود تھا۔

اقتصادی بحران

بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق جی 20 کے اعلامیے میں سربراہان ممکنہ طور پر دنیا کو اس اقتصادی بحران سے خبردار کریں جس کے بارے میں عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کہہ چکا ہے کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں کا سب سے بدترین بحران ہوگا۔

پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فارانٹرنیشنل اکنامکس کے سینئر فیلو اور آئی ایم ایف کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر عدنان مزاری کا کہنا ہے کہ جی 20 سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں اہم ترین مسائل سست شرح نمو اور موسمیاتی تبدیلی ہوں گے۔

عدنان مزاری کے مطابق اس سے اجناس کی مانگ میں کمی آئے گی اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور چین کے ساتھ تجارت کرنے والے ترقی یافتہ ممالک سمیت دیگر تمام ممالک متاثر ہوں گے۔

موسمیاتی تبدیلی

اقتصادی ترقی سے متعلق خدشات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات روز بروز زیادہ واضح ہوتے جا رہے ہیں جبکہ عالمی رہنماؤں کو ترقی پذیر خصوصاً افریقی ممالک کی جانب سے مدد کے لیے کہا جا رہا ہے۔

مزاری نے کہا، ’اس مقصد کے لیے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں خصوصاً عالمی بینک میں اصلاحات اور ان کے وسائل میں اضافہ کرنے کے حوالے سے اقدامات کی رفتار تیز کی جا رہی ہے۔ یہ نظریاتی طور پرسرمائے میں اضافے کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ لیکن عالمی بینک کو اپنے وسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت دینے کا مطلب ہو گا وہ اپنے وسائل کے ساتھ زیادہ خطرہ مول لے۔‘

مزاری نے کہا کہ وہ جی 20 کے رہنماؤں سے یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ قرضوں میں ڈوبے بیشتر ترقی پذیر ممالک کے مسائل حل کریں گے اور ان کے ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کی توسیع میں مدد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی اہم پیشرفت کے حوالے سے امید نہیں ہیں مگر ان کا خیال ہے کہ سربراہی اجلاس میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے متعلق قرار داد کا امکان ہے۔

چینی صدر کی غیر موجودگی

چین کے صدر شی جن پنگ کی طرف سے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ان کا ملک متعدد سمتوں سے دباؤ میں ہے۔ کچھ لوگوں نے قیاس کیا ہے کہ چینی صدر کی غیر موجودگی ان کی عالمی قیادت کو نئی شکل دینے کی جاری کوششوں کا حصہ ہے۔

 گزشتہ ماہ، برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس ممالک نے اعلان کیا تھا کہ اس نے کئی دیگر ممالک کو برکس میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ ارجنٹائن، مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اگر یہ دعوت قبول کر لی تو وہ یکم جنوری تک برکس کے رکن بن جائیں گے۔

دیگر ممالک نے سربراہی اجلاس سے قبل چین سے متعلق مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کے دورے سے قبل کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ انہیں چین کے ساتھ اپنے ملک کے کشیدہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کا بہت کم موقع ملا اور انہوں نے عالمی سطح پر چین کی بڑھتی ہوئی جارحانہ موجودگی پر تنقید کی ہے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سانک نے بھی موسمیاتی تبدیلی اور یوکرین جنگ کے موضوعات پر جی 20 کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کرنے میں چین کی ابتدائی ہچکچاہٹ پر عوامی طور پر تنقید کی تھی-

جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ چین جی 20 کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس نے جی 20 سمٹ کی دستاویز پر مشاورت اور بات چیت میں فعال اور تعمیری انداز میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین اتفاق رائے کے اصول کے تحت نئی دہلی سربراہی اجلاس میں مثبت نتائج کے لیے دیگر جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp