جی 20 سربراہی اجلاس: چینی صدر کی ممکنہ عدم شرکت سے صدر بائیڈن کو مایوسی

پیر 4 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہیں یہ جان کر مایوسی ہوئی ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق جوبائیڈن نے گزشتہ روز نامہ نگاروں کو بتایا: ’میں مایوس ہوں … لیکن میں ان (شی جن پنگ) سے ملنے جا رہا ہوں‘۔ تاہم امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی چینی صدر سے یہ ملاقات کب ہوگی۔

چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم لی کیانگ رواں ہفتے دہلی میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں چین کے وفد کی قیادت کریں گے۔

صدر شی جن پنگ اور جوبائیڈن کی آخری بار ملاقات گزشتہ سال انڈونیشیا میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ مذاکرات کی بحالی کے لیے واشنگٹن کے رواں سال کے دوران سفارتی دوروں کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ نے آج کی پریس بریفنگ میں واضح طور پر پوچھے گئے ایک سوال پر صدر شی جن پنگ کی دہلی سربراہی اجلاس میں شرکت کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید کی۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’لی کیانگ جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نمائندوں کی قیادت کریں گے۔ یہ ایک اہم عالمی عالمی فورم ہے۔ چین نے ہمیشہ اس کو اہمیت دی ہے اور اس میں بھرپور شرکت کی ہے۔‘

لیکن نامعلوم ذرائع سے چلنے والی خبروں کے حوالے سے گزشتہ ہفتے سننے میں آیا تھا کہ صدر شی جن پنگ جی 20 اجلاس میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے۔

یہ خبر اس وقت سامنے آئی ہے جب چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ مزید یہ کہ دونوں ملک ہمالیہ کے علاقے میں متنازع سرحد پر ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہی بھارت نے بیجنگ کی جانب سے ایک نقشہ جاری کیے جانے پر احتجاج کیا تھا جس میں ریاست اروناچل پردیش اور سطح مرتفع اکسائی چن کو چینی علاقہ قرار دیا گیا تھا۔

امریکہ اور چین کے صدور کے پاس اب بھی ایک موقع ہے کہ وہ نومبر میں سان فرانسسکو میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن کے رہنماؤں کے اجلاس میں ایک دوسرے سے بات چیت کریں۔

گزشتہ نومبر میں انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے تقریباً دو ماہ بعد امریکی فضا میں مبینہ طور پر ایک جاسوس چینی غبارے نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کی امیدوں کو ختم کر دیا تھا۔

امریکہ اور چین کے درمیان مختلف اختلافات پائے جاتے ہیں جن میں روس کا یوکرین پر حملہ، سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق، تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین پرعلاقائی دعوے کے علاوہ وہ اقتصادی پابندیاں شامل ہیں جو جدید ٹیکنالوجی تک بیجنگ کی رسائی کو محدود کرتی ہیں۔

چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ امریکی حکام نے حالیہ چند مہینوں کے درمیان چین کا دورے کیے ہیں۔ ان حکام میں وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، وزیر خزانہ جینٹ ییلن اور امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے موسمیاتی تبدیلی جان کیری شامل ہیں۔

دریں اثنا، صدر شی جن پنگ چین کو ترقی پذیر دنیا کے رہنما اور واشنگٹن کی قیادت میں عالمی نظام کے متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ جنوبی افریقہ میں برکس ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات میں انھوں نے مغربی ’غلبے‘ پر تنقید کی اور ترقی پذیر ممالک پر زور دیا کہ وہ ’نوآبادیاتی‘ نظام کے چنگل سے نکل آئیں ۔

برکس دراصل پانچ ترقی پذیر ممالک کا بلاک ہے جن میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ جبکہ ارجنٹینا، مصر، ایران، ایتھوپیا اور سعودی عرب کی اگلے سال جنوری میں اس بلاک میں شمولیت سے چین کی سفارتی فتح واضح نظر آتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp