پاکستان نے معیشت کے استحکام کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض لیا ہوا ہے جس کی بروقت ادائیگیوں کے لیے عالمی ادارے نے معاہدے میں سخت شرائط رکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ کیا جس کے باعث اگست میں ملک بھر میں احتجاج ہوا جس کے باوجود حکومت عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے قاصر رہی۔ اب گیس کی باری ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت آئی ایم ایف نے گیس کی قیمتوں میں 45 فیصد تک اضافے کا مطالبہ کیا ہوا ہے۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کے مطابق سیکٹر کا سالانہ نقصان 350 ارب روپے ہے جسے کم کرنے کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اوگرا نے شہباز شریف حکومت کو یکم جولائی 2023 سے گیس کی قیمتوں میں 50 فیصد تک اضافے کی سفارش کی تھی تاہم شہباز شریف حکومت نے گیس قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا تھا۔ گیس قیمتوں میں اضافے سے سوئی ناردرن گیس کمپنی کو سالانہ 121 ارب جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی کو 105 ارب روپے تک کا فائدہ ہوگا۔
معاہدے کے تحت آئی ایم ایف نے گیس نرخوں میں 45 فیصد تک اضافہ کر کے 435 ارب روپے جمع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ گیس قیمتوں میں اضافہ یکم جولائی 2023 سے کرنا تھا تاہم شہباز شریف حکومت نے اس میں اضافے کی منظوری نہیں دی تھی۔
ذرائع کے مطابق اب نگراں حکومت کو گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دینی ہو گی اور جولائی سے ستمبر تک نہ کیے گئے اضافے والی رقم (ایریئرز) صارفین سے اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے بلوں میں وصول کی جائے گی۔
وی نیوز کو ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر کیے جانے والے گیس قیمتوں میں اضافے کا اطلاق بڑے گھریلو صارفین پر ہوگا جبکہ چھوٹے گھریلو صارفین کے لیے گیس مہنگی نہیں کی جائے گی۔
کمرشل صارفین بشمول تندور، ریسٹورنٹ، کھاد کے کارخانوں، اسٹیل انڈسٹری و دیگر کے لیے بھی گیس کی قیمتیں بڑھا دی جائیں گی۔