اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر تنقید کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی محاذ پر مذمت کا سامنا ہے، جہاں ان کے متعدد ریپبلکن حریفوں نے انہیں براہ راست نشانے پررکھ لیا ہے۔
حماس کے اسرائیل پر مہلک حملوں کے پس منظر میں بدھ کو ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ہمیں 2020 میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے سے قبل مایوس کیا، انہوں نے جہاں اسرائیلی قیادت کو اپنے معاملات میں بہتر بنانے کا مشورہ دیا وہیں لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اسے ’ویری اسمارٹ‘ بھی کہہ دیا۔
جمعرات کو اپنے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل پر اپنی تنقید میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو گزشتہ ہفتہ کے اختتام پر غزہ کی جانب سے جان لیوا در اندازی کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر دفاع کے لیے بھی گھٹیا لفظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔
صدارتی امیدوار کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2024 کے حریفوں میں سے ایک فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس نے ان کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت نہیں ہے کہ ہم اپنے اتحادی پر حملہ کریں۔ ریپبلیکن ایک اور صدارتی دعویدار نارتھ ڈکوٹا کے گورنر ڈوگ برگم نے ٹرمپ کے تبصروں کا موازنہ ایک غیر ملکی اتحادی سے کیا جو 9/11 یا پرل ہاربر پر حملے کے بعد امریکہ پر تنقید کر رہا تھا۔
جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر ٹم اسکاٹ نے کہا کہ ہم اسرائیل کے کسی بھی دشمن کو دیا گیا ایک بھی پیغام تسلیم نہیں کرسکتے جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ امریکی اور اسرائیلی قیادت آپس میں تضاد سے دوچار ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان اینڈریو بیٹس نے ٹرمپ کے بیانات کو ’خطرناک اور غیر متوازن‘ قرار دیا جب کہ اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو کارہی نے اسرائیل کے چینل 13 کو بتایا کہ یہ شرمناک ہے کہ سابق امریکی صدر جیسا شخص پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ایسی چیزوں کو پھیلا رہا ہے جو اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے جذبہ کو مجروح کرنے کا باعث بنتا ہے۔
مزید پڑھیں
ٹرمپ کے ساتھ عام طور پر ان کے سرکردہ ریپبلکن مخالفین درگزر کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں مگر اسرائیل پر ان کی تنقید بڑی حد تک اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان کا اگلے سال صدر جو بائیڈن سے مقابلہ کرنے کا امکان کس حد تک ہے، کیونکہ یہ ذاتی دشمنی اور ان لوگوں سے ناراضگی کا باعث ہے جنہوں نے 2020 کے انتخابات میں ان کی مبینہ فتح کے حوالے سے بیان کردہ جھوٹ کو مسترد کر دیا تھا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو برسوں قریبی اتحادی رہ چکے ہیں، اور اس میں دراڑ پڑی نیتن یاہو کی جانب سے جو بائیڈن کو 2020 کے انتخابات جیتنے پر مبارکباد دینے کے بعد کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت تک انتخابی نتائج کو الٹنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
مشرق وسطی میں اپنی امن کی کوششوں کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف کو دیے گئے انٹرویوز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے کردار کی وضاحت کے لیے ایک نازیبا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی رہنما کبھی بھی حقیقی امن قائم کرنا نہیں چاہتے تھے۔
ریپبلکن یہودی اتحاد کے بورڈ میں خدمات انجام دینے والے وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکریٹری ایری فلیشر نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو کے ساتھ اپنی ذاتی شکایات کو، چاہے وہ کچھ بھی ہوں، فی الحال ختم ہونے دیں گے۔
’میرے خیال میں یہ صرف ایک عکاسی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے، سب کچھ ذاتی ہے، لیکن اس کے باوجود میں کبھی نہیں بھولوں گا اور کسی کو نہیں بھولنا چاہیے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے لیے اچھے رہے ہیں۔‘
خود ڈونلڈ ٹرمپ ایک طویل عرصے سے کہتے آئے ہیں کہ انہوں نے کسی بھی سابق امریکی صدر کے مقابلے میں اسرائیل کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی ہے، اور اس ضمن میں وہ امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے اور ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے اپنے فیصلے کی نظیر پیش کرتے رہے ہیں۔
ایک قدامت پسند ریڈیو میزبان اور ٹرمپ کے نقاد ایرک ایرکسن نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ ایک اور علامت ہے کہ ٹرمپ کی جذباتیت ان لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے جو ان کے دوست نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک دہشت گرد گروپ کو پروپیگنڈے کے محاذ پر جیت سے ہمکنار کیا ہے، جو بدقسمتی کی بات ہے۔