روس نے امریکی صدر کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ واشنگٹن کو ایک نئے ’عالمی نظام‘ کی محرک قوت ہونا چاہیے اور کہا ہے کہ اس طرح کا امریکی مرکوز کا نظریہ فرسودہ ہے۔ روس نے امریکی صدر جوبائیڈن کے مطالبے کی حمایت کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی نیا نظام امریکا کے گرد نہیں گھومنا چاہیے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے گزشتہ روز میڈیا کو بتایا کہ اگرچہ وہ ’نئے عالمی نظام‘ کی ضرورت پر متفق ہیں، لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ امریکا کو اس کی قیادت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نیا نظام ایک ریاست کے ہاتھوں میں ارتکاز سے آزاد ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ جمعے اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ گزشتہ نصف صدی کا ’عالمی نظام‘ ختم ہو رہا ہے اور امریکا کو امن قائم کرنے کے لیے دنیا کو ایک نئے نظام میں متحد کرنے کی ضرورت ہے۔
جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں ہمارے پاس دنیا کو اس طرح متحد کرنے کا حقیقی موقع ہے جو طویل عرصے سے نہیں تھا اور یہ امن کے امکانات کو بڑھاتا ہے نہ کہ امن کے امکانات کو کم کرتا ہے۔‘
مزید پڑھیں
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جوبائیڈن کے جواب میں کہا ہے کہ ’ہم امریکا سے متفق نہیں ہیں کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس عالمی نظام کے بارے میں بات کرتا ہے، اگر ان کا مطلب ایک ایسا عالمی نظام ہے جو امریکا کے گرد گھومتا ہے تو اب ایسا نہیں ہوگا۔‘
امریکی صدر اور روسی ترجمان کا لفظی ٹکراؤ دونوں عالمی سپر پاورز کے درمیان گہری خلیج کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکا جو یوکرین میں روس کی جنگ ہی نہیں بلکہ ایران اور شمالی کوریا جیسے امریکی روایتی حریفوں کے ساتھ ماسکو کے ابھرتے ہوئے اتحاد کا بھی سخت مخالف ہے۔
فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے امریکا نے کریملن سے وابستہ افراد اور اداروں پر وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد کی ہیں اور یوکرین کو انسانی، مالی اور فوجی امداد کی مد میں اربوں ڈالر فراہم کیے ہیں۔ جو بائیڈن نے اپنے حالیہ بیانات میں اکثر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان موازنہ کیا ہے جسے امریکا نے ’دہشت گرد‘ تنظیم بھی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ جمہوریتوں کے لیے خطرہ ہیں۔