آنکھوں میں آزادی کے خواب لیے، مستقبل سےبے خبر، فلسطینی عوام ایک بار پھر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔ فلسطین کی فوج کے ننھے سپاہی، بہادر نوجوان اور حوصلہ مند عورتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے کربلا کا سامنا کررہے ہیں۔ بہادری، جرات اور عظمت کی داستان کسی نے اگلے برسوں میں اپنی نسلوں کو سنانی ہو تو اس کے لیے فلسطین ہی کافی ہوگا۔ وہ دنیا کو بتاتے ہیں کہ جنگ تو خالی ہاتھوں سے بھی لڑی جا سکتی ہے کیونکہ ہمارے حوصلے بلند ہیں۔
ایسا ہی حوصلہ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے صحافی وائل الدحدوح کا دیکھنے کو ملا جو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی کوریج میں مصروف تھے، جب انہیں بتایا گیا کہ ان کی اہلیہ اور بچے اسرائیلی فضائی حملے میں چل بسےہیں۔ ذرا تصور کریں، خود کو اس جگہ کھڑا کریں۔ کیا کیفیات ہونی چاہییں؟ لیکن اس کے باوجود وائل بہادری اور جرات کے ساتھ کھڑے رہے اور اپنے فرائض سر انجام دیے۔ انہوں نے خود اپنی وفاشعار بیوی، اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹی اور اپنے مستقبل کا مضبوط کاندھا بیٹے کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ انہیں منوں مٹی کے حوالے کیا اور پھر اسکرین پر آکر بتایا کہ اس حوصلے کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ وہ چٹان کی طرح کھڑے ہو کردنیا کو پیغام دیتے نظر آئے کہ کون ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے؟
فلسطینیوں پر ظلم کی داستانوں سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ فلسطینی قوم اپنی تاریخ میں بے شمار واقعات سموئے ہوئے ہے۔ انہی ہولناک اور دہشت ناک واقعات میں 1982میں فلسطینی مہاجر کیمپ صابرا اور شتیلا میں بھیانک قتل عام بھی شامل ہے۔ جب فلسطینی مہاجروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، اسرائیلی بھیڑیوں نے فلسطینی بچوں، خواتین اور مردوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا اور بدترین ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ صابرا اور شتیلا کے قبرستان آباد کیے گئے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے ۔
ہر دردمند شخص کے دل میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی ہے۔ تقریباً آٹھ دہائیوں سےفلسطین اپنے خود ارادیت کی جدوجہد میں ہے، اسی جدوجہد میں ہزاروں فلسطینی اپنی زمینوں سےبے دخل ہوئے، گھروں سے نکال دیے گئے، دربدر ہوگئے، جو کسمپرسی کا شکار ہیں۔ لیکن وہ دنیا جو ایک بلی اور کتے کی موت پر سراپا احتجاج بن جاتی ہے، وہ ایسی آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے جیسے فلسطینی انسان نہیں۔ مغرب کسی زمانے میں کچھ حدود کا خیال رکھتا تھا لیکن اب تو لگتا ہے اس نے سارے نقاب اُتارکر بے نقاب ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ایسے وقت میں جب مغربی ممالک اسرائیل کے حق میں مہم چلا رہے ہیں الجزیرہ جیسے چند میڈیا نیٹ ورکس غزہ سےبھرپور کوریج کررہے ہیں جس سے مغربی میڈیا بھی گھبرایا ہوا ہے اسی لیے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے قطر سے کہا ہے کہ وہ الجزیرہ کی کوریج کو کم کریں۔ یعنی وہ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ الجزیرہ دنیا کو اسرائیل کا خونخوار چہرہ دکھارہا ہے۔ وہ اس ظلم اور بربریت میں امریکا کی سرپرستی کو ایکسپوز کررہا ہے۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ آج ہم مغربی میڈیا کے آسرے پرہوتے تو ان کی جانبدار رپورٹنگ کے باعث مظلوم فلسطینی ہی ظالم نظر آتے۔ اس لیے کہ غزہ میں قتلِ عام کی رپورٹنگ اور تبصرے کرنے سے روکنے کے اقدامات کیے جارہے ہوتے۔
خدا بھلا کرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں ایکس (ٹویٹر) کا۔ اس نے بھی اسرائیلی جارحیت اور بربریت کو بہت حد تک ایکسپوز کیا ہے۔ وہاں جاکر پتا چلتا ہے کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ لیکن دنیا کو انسانی حقوق کا درس دینے والا مغرب خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اورفلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی میڈیا یکطرفہ رپورٹنگ کر رہا ہے۔ مغربی میڈیا مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے حملوں کو جائز قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ غزہ کے لیے مغربی ممالک کا کردار ن کے دوغلے پن کا ثبوت ہے ۔
امریکا سپر پاور ہے لیکن اس کا پلڑا ظلم کی طرف جھکا ہوا ہے۔ آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ دوہرا رویہ چونکا دینے والا ہے۔ ایسےمیں مختلف ممالک کی حکومتوں اور او آئی سی نے بھی محض مذمتوں پر ہی بھروسہ کیا ہے اوراسلامی ممالک نے چپ سادھ لی ہے مگر فلسطین کے عوام اسلامی ممالک کی طرف امید سے ضرور دیکھتے ہیں۔
اگر عرب ممالک غزہ کے ان حالات میں مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل اپناتے تو امریکا کھل کر اسرائیل کے حق میں سامنے نہ آتا۔ بین الاقوامی برادری کو مداخلت کرکے شہریوں پر ان حملوں کو بند کروانے میں کردار ادا کرنا ہو گا۔ آج ارض فلسطین امت مسلمہ کی راہ دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں فلسطینیوں کی حمایت کے لیے متحد ہونا ہو گا اورایک قدم آگے بڑھانا ہو گا۔ آخر کب تک بلکتے بچوں کی پکار سننی ہو گی، کب تک فلسطینیوں کے جنازے اٹھتے رہیں گے۔ ان کے لیے آزادی سورج کب طلوع ہوگا۔