الیکشن آ رہے ہیں مگر قوم بیزار کیوں ہے؟ سیاست کو زوال، کھیل پستی کا شکار، قومی ادارے اور معیشت تباہی کے دھانے پر، تعلیم بدحال، فلم انڈسٹری ماضی کا حصّہ، موسیقی ناپید، ٹی وی اور سٹیج ڈرامے بے جان۔ یعنی جس شعبے پر نظر ڈالیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسا کیا ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ فنا ہو گیا؟۔
موسیقی اور فلم کا یہ حال ہے کہ نیوز چینلز پر انٹرٹینمنٹ کی ہیڈلائنز اور خبروں میں ماضی کےگلوکاروں، موسیقاروں، اداکاروں کی برسی اور سالگرہ کے علاوہ کوئی خبر نہیں ہوتی جسے نیوز بلیٹن میں شامل کیا جا سکے۔
جغرافیائی اور سفارتی صورت حال یہ کہ چین کے سوا سب ہمسائیوں سے ہمارے تعلقات خراب نظر آتے ہیں۔ بھارت سے دشمنی ختم کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں ہو گئیں۔
1999 میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی دوستی کا پیغام لے کر مینار پاکستان آئے اور ہم نے کارگل پہنچ کر ان کی امن کی ‘گھناونی’ کوشش کو ناکام بنا دیا۔
آج 24 سال یعنی صدی کا ایک چوتھائی حصہ بیت گیا۔ افغانستان اور ایران کو ہم سے اور ہمیں ان سے شدید شکوے، گلے اور شکایات ہیں۔ 80 کی دہائی میں لاہور اور کراچی سے آئے روز لوگ ایران پہنچے ہوتےتھے، ان میں سے کچھ کاروبار اور کچھ تفریح کے لیے گئے ہوتے تھے، مگر اب شاذ و نادر ہی کوئی ایران گیا ہو یا وہاں سے ہو۔
عدلیہ سمیت تمام اداروں نے اس تباہی میں خوب حصّہ ڈالا، پھر ایک کھلاڑی نوجوان نسل کے لیے امیدِ سحر اور تبدیلی کا نعرہ لے کر سیاست کے میدان میں کود گیا۔ اسے ‘سب چور ہیں’ کا ایسا ورد پڑھایا گیا کہ وزیراعظم بن کر اس نے تعلیم، صحت، کھیل، خارجہ پالیسی، اداروں میں اصلاحات وغیرہ سب چھوڑ کر ‘چوروں’ کے خلاف جائز ناجائز مقدمات بنا کر انہیں جیلوں میں ڈال دیا۔
اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر امریکا سے لے کر پاکستان کے اداروں اور سیاستدانوں کو اس سازش کا حصہ قرار دے دیا، جیسے دنیا میں کسی کے خلاف کبھی تحریکِ عدم اعتماد آئی ہی نہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ایک ووٹ سے کامیاب ہوئی تو انہوں نے خوشدلی سے اپوزیشن کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔
پھر اس کھلاڑی نے مقبولیت کے نشے میں ٹکراؤ کا ایسا سیاسی سلسلہ شروع کیا کہ آج اس کی پارٹی خزاں کے پتوں کی مانند گرتی چلی جا رہی ہے اور اس کے جوشیلے کارکن جو عمران خان کو اپنی ریڈ لائن قرار دیتے تھے آج بے بسی کے عالم میں ہیں۔
اب صدر مملکت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کی حتمی تاریخ 8 فروری کا اعلان کر دیا ہے اور اس تاریخ کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی بتا دیا جائے گا۔
اب تحریک انصاف کے معصوم کارکنان اور سپورٹرز مایوسی کا شکار ہیں کہ مقتدر حلقے ان کی پسندیدہ پارٹی کو الیکشن میں حصّہ نہیں لینے دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف لا امید ہے، پاکستان پیپلز پارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہ ہونے پر شکوہ گو ہے جبکہ مسلم لیگ نواز خوش تو ہے مگر ابھی انہیں ڈر بھی ہے کہ کیا وہ پنجاب میں ماضی کی طرح اب بھی اتنی ہی مقبول ہے ؟کیونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کے کڑوے معاشی فیصلے اور عمران خان کی مقبولیت الیکشن پر بری طرح اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی 2018 کے انتخابات میں پنجاب کی نشستوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔مسلم لیگ ن کو اب بھی یقین نہیں کہ نواز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے گا یا نہیں؟۔
مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو اب یقین ہوچکا ہے کہ ملک کی معیشت فوری سدھرنے والی نہیں۔ حالیہ سالوں میں ہونے والی سیاسی رسہ کشی، سیاسی جوڑ توڑ اور سیاست میں کھلم کھلا غیر جمہوری مداخلت نے عوام کو سیاسی نظام سے بیزاری اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔
2018 کے الیکشن میں سیاسی ہیر پھیر اور جبر کے بعد ملک میں ایک ریڑھی بان بھی جانتا تھا کہ عمران خان کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے اور اس مرتبہ سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔
مسلم لیگ نواز جس لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ کررہی تھی وہ انہیں فراہم کی جا رہی ہے۔ سب کے علم میں ہے کہ ’استحکام پاکستان پارٹی‘ بھی مسلم لیگ ن کی ہی ایک شاخ ہے۔
سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی ہی میدان مارے گی۔خیبرپختونخواہ میں نشستیں تقسیم ہوں گی اور بلوچستان کے نتائج توقع سے ہٹ کر نہیں آئیں گے۔ آنے والے الیکشن عوام کی معاشی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی لاتے ہوئے نظر نہیں آ رہے، تو پھر عوام بیزار کیوں نہ ہوں اور ان میں الیکشن کا جوش کہاں سے لایا جائے؟
مایوسیوں کے عالم سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔ بہت تجربے ہوگئے اب عدلیہ سمیت تمام اداروں کو اپنا اپنا کام نیک نیتی سے کرنا ہو گا۔ ورنہ اندھیرے اس ملک کا مقدر رہیں گے۔