پاک افغان بارڈر طورخم کے ٹرمینل پر ایک عجیب نوعیت کی بے چینی اور پریشانی کا عالم ہے، بیشتر افراد عجلت میں سامان لے کر بارڈر کراسنگ کی طرف دوڑ رہے ہیں، انہیں لوگوں میں ایک ریاض خان بھی ہے، جو اپنے خاندان کے ہمراہ افغانستان جانے کے لیے طورخم پہنچے ہیں۔
ریاض خان کی کوشش ہے کہ اندھیرا ہونے سے پہلے بارڈر کراس کرلیا جائے کیونکہ ان کا اپنا ملک افغانستان ان کے لیے انجان ہے۔ ’میں پہلی بار افغانستان جا رہا ہوں، پہلے کبھی نہیں گیا، میری پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی۔ سمجھ نہیں آتا وہاں جا کر کیا ہوگا۔‘
اندیشے، خدشات اور وسوسوں سے دوچار نوجوان ریاض خان ہی نہیں بلکہ وطن واپس جانے والے بیشتر افغان باشندے اپنے غیر یقینی مستقبل سے پریشان ہی نظر آئے۔
والد کا نام کشمیر خان کیوں رکھا؟
طورخم بارڈر پر وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ریاض خان نے بتایا کہ ان کے خاندان کی تیسری نسل پاکستان سے واپس جا رہی ہے۔ ان کے دادا نے افغانستان سے پاکستان ہجرت کے بعد کشمیر میں رہائش اختیار کی تھی۔ ’دادا کے مطابق والد کی پیدائش کشمیر میں ہوئی تھی جس پر ان کا نام کشمیر خان رکھا گیا تھا۔ اب وہ ایک طرح سے کشمیری شناخت لے کر افغانستان جا رہا ہے۔‘
ریاض خان نے بتایا کہ وہ آزاد کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک گاؤں میں رہتے تھے اور مقامی زبان بھی آسانی سے بول لیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ریاض خان اردو بھی روانی سے بولتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے تھے اور کبھی سوچا نہیں تھا کہ واپس جائیں گے اور وہ بھی ایسے۔
’لگ رہا ہے کہ اپنے ملک سے بے دخل ہو رہا ہوں‘
ریاض خان کافی مایوس اور غمگین تھے لیکن وہ جانے کی بھی جلدی کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اپنے ملک جا نہیں رہے بلکہ اپنے ملک سے بے دخل ہو رہے ہوں۔ ’اب ہمیں جانا ہے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی آئے اور ہمیں کہے کہ نہ جاؤ یہ آپ کا ملک ہے۔‘
ریاض خان کے مطابق ان کی جو حالت ہے وہ ان کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا، بچپن کے دوست، گلی، محلے، یادیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ مجھے اب بھی یقین نہیں کہ ہم وطن چھوڑ کر مسافر بن جائیں گے۔
ریاض خان کا کہنا تھا کہ وہ محنت مزدوری کرتے تھے، حلال کمائی سے دن گزر رہے تھے۔’افغان جرائم میں بھی ملوث ہوں گے، لیکن سب نہیں۔ ایک دو کے لیے پوری قوم کو بدنام کرنا، انہیں نکالنا مناسب نہیں۔ میرے دادا نے پاکستان آکر خیمے سے زندگی کا آغاز کیا تھا، اب ہم افغانستان جا کر دوبارہ خیمے سے دوبارہ زندگی شروع کریں گے۔‘
مزید پڑھیں
افغانستان میں گھر، زمین کچھ نہیں
افغانستان واپس جانے والے باشندوں کو فکر لاحق تھی کہ وہ واپس جا کر کہاں رہائش اختیار کریں گے، کابل کے ایک نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے گل محمد بھی انہی میں سے ایک تھے۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ وہ گزشتہ 2 عشروں سے پاکستان میں مقیم تھے۔ ’ہمارے گاؤں کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ ہمارے زمینوں پر کون آباد ہیں کس کے قبضے ہیں۔ ہمیں نہیں پتہ، کون واپس دلائے گا۔‘
گل محمد کے مطابق ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی جب وہ پاکستان آئے تھے، آج ان کے پوتے بھی بڑے ہو گئے ہیں، ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ طالبان حکومت نے خیمہ بستی قائم کی ہے، جہاں ایسے خاندان رہ سکیں گے جن کا اپنا گھر اور زمین نہ ہو اور حکومت انہیں گھر کے لیے جگہ بھی دے گی۔‘
گل محمد نے بتایا کہ وہ کراچی میں رہائش پذیر تھے جہاں حکومتی ڈیڈلائن کے بعد پولیس نے انہیں تنگ کرنا شروع کردیا تھا۔ ’جگہ جگہ تنگ کیا جاتا تھا، پولیس کو دیکھتے ہی خوف اور ڈر لگتا تھا کہ ابھی گرفتار نہ کر لے، بے عزتی اور پولیس چھاپے اور گرفتاری کے ڈر سے رضاکارانہ طور پر واپس ہونے کا فیصلہ کیا اور کراچی سے طورخم آگئے۔
گل محمد کے مطابق ان کی شکایات سننے والا کوئی نہیں، ہم خود غیر قانونی تھے، دستاویزات نہیں تھیں، اس لیے انصاف اور قانون کی بات نہیں کر سکتے تھے، جس کا فائدہ پولیس اٹھاتی تھی۔
’مجھے یاد ہے جب والد کے ساتھ پاکستان آئے تھے تو بالکل ایسی ہی پریشانی تھی، انجان ملک جا رہے ہیں کیا ہو گا، بچے اور خواتین ساتھ ہیں لیکن آج پھر اسی صورت حال سے گزر رہے ہیں، اس وقت پاکستان انجان ملک تھا آج افغانستان انجان ہے۔‘
تعلیم کا خوب پورا نہیں ہوا
واپس جانے والوں میں افشاں بھی شامل تھیں، جو افغان طالبان حکومت کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آئی تھیں، پشاور کے ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم اس 15 سالہ طالبہ کو تعلیم ادھورا چھوڑ کر جانا پڑا۔ ’ہم کس طرح تعلیم حاصل کریں گے، کوئی ہمیں تعلیم کے لیے تو چھوڑ دے، وہاں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے، یہاں ہم رہ نہیں سکتے۔‘
افشاں گاڑی سے سامان اتارنے میں بھائی کی مدد بھی کر رہی تھیں اور ساتھ ہی اپنی داستان بھی سنا رہی تھیں۔ ’ہم ایک امید لے کر پاکستان آئے تھے کہ شاید ہماری زندگی بدل جائے گی، سکون ہوگا، امن اور سہولیات مل جائے لیکن یہاں بھی پریشانی، خوف اور ڈر کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ہماری بھی کیا زندگی ہے، آج یہاں کل وہاں، دربدر۔‘
افشاں نے جذباتی ہوکر سوال کیا کہ کیا افغان لڑکیوں کو پڑھنے کا کوئی حق نہیں، شادی کرے ساری زندگی خاوند کی خدمت کرے اور بچے پیدا کرے، ان کے لیے آواز اٹھانے والے بہت لیکن عملی طور پر کام کرنے والا کوئی نہیں،کوئی سامنے نہیں آرہا کہ زبردستی واپسی کو روکے، وہ مایوس ہو کر واپس جارہے ہیں۔
جمع پونجی کرائے پر خرچ ہو گئی
پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں رہائش پذیر ہاشم خان (فرضی نام) سبزی فروش تھے، وہ خاندان کے 12 افراد کے ہمراہ کر طورخم بارڈر آئے ہیں۔ اوکاڑہ سے سامان سمیت ٹرک میں سفر کا کرایہ 80 ہزار روپے بنا۔ ’اب ہمارے پاس کچھ نہیں، افغانستان میں کیا کریں گے، کیا کھائیں گے، وہاں گزر بسر کے لیے کچھ کما بھی سکیں گے یا نہیں، کچھ معلوم نہیں۔‘
ہاشم خان کے مطابق افغانستان میں سردیوں کا آغاز ہو گیا ہ۔ اور انہیں بچوں اور خواتین کی فکر ہے۔ ’پاکستان میں اسپتال کی سہولتیں تھی وہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ علاج کے لیے بھی پاکستان آنا پڑتا ہے، اگر وہاں پاکستان کے برابر گزر بسر ہو تو ہم واپس نہیں آنا چاہیں گے۔‘
سندھ اور پنچاب سے آنے والوں کی تعداد زیادہ ہے
ٹرک اور دیگر بڑی گاڑیوں میں سامان لاد کر طورخم پہنچنے والوں میں زیادہ تعداد سندھ اور پنجاب میں رہائش پذیر افغان باشندوں کی ہے، جو پولیس کریک ڈاون کے ڈر سے واپس جارہے ہیں، اوکاڑہ پنجاب سے آنے والے ہاشم خان نے بتایا کہ ان کے گھر چھاپا نہیں پڑا لیکن انہیں پولیس اطلاع دے رہی تھی کہ ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد کارروائی ہو گی۔
کراچی سے آنے والے گل محمد نے بتایا کہ کراچی میں سختی زیادہ ہے وہاں زبان کا بھی مسئلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کریک ڈاون اور گرفتاریوں کے خوف کے پش نطر بروقت نکل آئے۔ ’چھاپوں کے دوران پولیس عورتوں اور بچوں کا بھی خیال نہیں کرتی اور سب کو اٹھا لیتی ہے، پھر پیسے بھی الگ بٹورتے ہیں، اس لیے خود ہی نکل آئے۔‘
طورخم بارڈر پر کیا صورت حال ہے؟
طورخم بارڈر پر رش ہے، مین ٹرمینل پر تعمیراتی کام کی وجہ سے اپروچ روڈ کی حالت بھی خستہ ہے جبکہ رش کے باعث ہر طرف گرد و غبار کا ماحول ہے، لیکن واپس جانے والوں کو اس سب سے کوئی غرض نہیں۔ پاک افغان شاہراہ پر مختلف مقامات پر چیک پوسٹ قائم ہیں جہاں ان گاڑیوں کو روک کر وقفے وقفے سے جانے دیا جا رہا ہے تاکہ بارڈر پر زیادہ رش نہ لگ جائے۔
واپس جانے والے افغان باشندے جگہ جگہ بیٹھے دکھائی دیے جبکہ سامان سروں پر اٹھا کر بچے اور خواتین پیدل بھی بارڈر جاتے نظر آتے رہے۔ پیدل آنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ کہ وہ 30 منٹ سے پیدل چل رہی ہیں لیکن ابھی تک بارڈر نہیں پہنچ سکیں۔ چیک پوسٹ پر گاڑی کو روکا گیا تو وہ بچوں کو لے کر پیدل آگئی ہیں۔
’بچے مرغیاں ساتھ لے کر آئے ہیں۔ ’یہ انڈے دیتی ہیں، انڈوں سے گزارہ کریں گے اور ضرورت پڑی تو ذبح کرکے پکا لیں گے۔ افغانستان میں کیا حالات ہوں گے کچھ پتا نہیں۔‘
بارڈر آنے والے افغان باشندوں نے یہاں سہولیات کی عدم فراہمی کا شکوہ بھی کیا، خاتون نے بتایا کہ وہ لوگ طویل سفر کرکے یہاں پہنچے ہیں مگر یہاں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ واش رومز کا بھی بڑا مسئلہ ہے، پینے کا پانی بھی نہیں ہے۔
عارضی کیمپس
افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے خیبر پختونخوا میں ابتدائی طور پر 3 عارضی کیمپس قائم کیے گئے تھے جبکہ اب ضلع نوشہرہ میں مزید چھ کیمپس قائم کردیے گئے ہیں۔ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق ان کیمپس میں تمام تر سہولیات دستیاب ہیں۔
واپس جانے والے افغان باشندوں کی ان عارضی کیمپس میں رجسٹریشن کے بعد انہیں طورخم بارڈر سے ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے، ضلع خیبر میں واقع کیمپ میں دیگر کیمپوں کی نسبت زیادہ رش ہے، جس کے لیے انتظامات ناکافی ہیں۔ افغان باشندے واش رومز اور دیگر سہولیات اور انتظامات نہ ہونے کا شکوہ کرتے نظر آئے۔
اب تک کتنے افغان باشندے واپس جاچکے ہیں؟
غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کی واپسی کی ڈیڈلائن کے بعد افغان باشندوں کی واپسی میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق صرف طورخم بارڈر سے گزشتہ روز 19 ہزار 320 افغان باشندے وطن واپس جاچکے ہیں جبکہ 6 اکتوبر سے اب تک مجموعی طور پر ایک لاکھ 47 ہزار 9 سو 73 افغان باشندے واپس جا چکے ہیں، جن میں 76 ہزار 6 سو 75 بچے، 30 ہزار 3 سو 99 خواتین اور 80 ہزار 8 سو 99 مرد شامل ہیں۔