نگراں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان ہفتے کی صبح انتقال کرگئے، گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے پر حیات آباد میں ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا، طبیعت نہ سنبھلنے پر خالق حقیقی سے جا ملے۔
نگراں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان نے 21 جنوری 2023 کو عہدے کا حلف اٹھایا تھا، لیکن اب ان کی وفات کے بعد تمام کابینہ تحلیل ہو چکی ہے، اور تمام اختیارات گورنر کے سپرد ہو چکے ہیں۔
نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیسے ہوگا؟
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے آئینی ماہر حافظ احسان کھوکھر نے بتایا کہ اب اعظم خان کی وفات کے بعد کابینہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن اگر یہ روٹین میں ہوا ہوتا تو وزیراعلیٰ کے جانے کے بعد اسمبلی با آسانی نئے وزیراعلیٰ کو منتخب کر لیتی۔ چونکہ یہ معاملہ نگراں وزیراعلیٰ کا ہے تو اس صورت میں آئین کے 2 آرٹیکل اس سارے معاملات پر پورا اترتے ہیں۔
مزید پڑھیں
آرٹیکل 224 اور آرٹیکل 224 اے، آرٹیکل 224 کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا۔ جبکہ 224 اے کو بیسویں امینڈمنٹ کے ذریعے متعارف کروا کر تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ جب یہ اسمبلی ختم ہوئی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر نے اس نام کا انتخاب کیا تھا اور اعظم خان وزیر اعلیٰ بنے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب نہ وزیراعلیٰ موجود ہیں اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر، تو اب اس صورت میں آرٹیکل 224 ہی رہ جاتا ہے۔ جس کے تحت وزیراعظم کو لگانے کا اختیار صدر کے پاس اور نگراں وزیر اعلیٰ کو لگانے کا اختیار گورنر کے پاس ہے۔ اور گورنر ہی اگلے وزیراعلیٰ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
’میرے خیال میں صرف گورنر کے علاوہ تمام پارٹیوں کو بھی اس فیصلے میں شامل کیا جائے تو صوبے کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔‘
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو وزیراعلیٰ کا انتخاب ایوان صدر اور اپوزیشن لیڈر کرتے ہیں، لیکن نگراں وزیراعلیٰ کے معاملے میں مجھے لگتا ہے کہ اس وقت کے جو گورنر ہیں وہ فیڈرل گورنمنٹ سے اتفاق رائے پر نگراں وزیراعلیٰ کی کابینہ میں سے کسی ایک ممبر کا انتخاب کر لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گورنر کوئی قانون سازی بھی کر سکتا ہے تاکہ صوبے کو چلا سکیں۔ لیکن یہ صورتحال پہلی بار تاریخ میں دیکھنے میں آئی ہے اور یہ معاملہ اب کورٹ میں جا کر ہی حل ہوگا۔