سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ بچے کی پرورش پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے دادا کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے احکامات کے تحت دادا کی قبضے میں لی گئی جائیداد واپس کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
عدالت نے ساتھ میں ہائی کورٹ کی جانب سے دادا کی اپیل مسترد ہونے کے احکامات کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا، درخواست گزار بشیر احمد کے مقدمے کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی جبکہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 3 نومبر کی اس سماعت کا تحریری فیصلہ گزشتہ روز جاری کیا تھا۔
واقعہ ہے کیا؟
2018 میں حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے 3 سالہ محمد ریحان نے اپنی ماں عزیز فاطمہ کے توسط سے اپنے باپ انصر عباس کے خلاف نان نفقے کا مقدمہ دائر کیا، مقدمے کا فیصلہ درخواست گزار کے حق میں آیا اور اس کے بعد عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے درخواست دائر کی گئی۔
بچے کے والد انصر عباس کے گرفتاری وارنٹ جاری ہونے کے باوجود عدالتی احکامات کی تعمیل نہ ہو سکی اور نہ ہی انصر عباس کے نام پر کسی جائیداد کا پتہ چل سکا۔ بعدازاں بچے کے دادا کے نام پر ایک جائیداد سامنے آئی اور بچے کی ماں نے بچے کے نام پر اس جائیداد کی ضبطگی کے لیے درخواست دائر کی جو کہ 7 ستمبر 2018 کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حکمنامے کے ذریعے منظور ہو گئی۔
بچے کے دادا بشیر احمد نے پہلے ٹرائل کورٹ اس کے بعد ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ وہ تو متعلقہ مقدمے میں فریق ہی نہیں تھے تو کس طرح سے ان کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے لیکن دونوں عدالتوں سے ان کی درخواستیں مسترد ہو گئیں۔
بچے کی پرورش دادا کی ذمہ داری مگر شرائط کے ساتھ
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ اگر ایک بچے کا والد فوت ہو جائے یا بہت غریب ہو تو اسلامی قانون کے مطابق اس کی پرورش کی ذمے داری دادا پر منتقل ہو جاتی ہے لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں، جن میں سے ایک شرط یہ ہے کہ دادا مالی طور پر آسودہ ہو اور دوسری یہ کہ بچے کا باپ یا تو فوت ہو جائے یا پھر انتہائی غریب ہو۔ اگر یہ دو شرائط پوری نہیں ہوتیں تو بچہ دادا پر پرورش کے اخراجات کا دعوٰی نہیں کر سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے کہ درست اقدام کے لیے غلط طریقہ کار نہیں اپنایا جا سکتا۔ درست اقدام کے لیے درست طریقہ کار ہی اپنایا جائے تب ہی وہ درست ہوتا ہے اور کسی واقعے کا حتمی نتیجہ اس کے لیے اختیار کیے گئے غلط طریقہ کار کو درست ثابت نہیں کر سکتا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ماتحت عدالتوں نے بچے کو اس کی پرورش کے اخراجات جلد از جلد ادا کرنے کے لیے غلط قانونی راستہ اپنایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں فریقین غیر ضروری مقدمے بازی میں الجھتے چلے گئے۔
’اس ملک کی تمام عدالتوں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ لوگوں کی زندگی، آزادی، جائیداد، عزت، شہرت سے متعلق تمام مقدمات کے فیصلے قانون کے مطابق ہونے چاہییں اور عدالت میں پیش ہونے والا ہر شخص صاف اور شفاف ٹرائل کا مستحق ہے۔‘