حمزہ شہباز زندگی سے ناامید کب ہوئے تھے؟ وی نیوز سے گفتگو میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے تفصیل بتادی

منگل 14 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ جیل میں کورونا وائرس جب ان پر حملہ آور ہوا تھا تو انہوں نے سوچا تھا کہ وہ اب زندہ نہیں رہیں گے۔

وی نیوز کے نمائندے عارف ملک سے خصوصی گفتگو میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے دل کی بہت سی باتیں بتا دیں۔

 عارف ملک نے جب حمزہ شہباز سے پوچھا کہ جیل میں انہوں نے اپنا وقت کیسے گزارا؟ وہ افسردہ سے ہو گئے اور کہنے لگے ’مجھے وہ دن یاد آتے ہیں کہ جب کورونا کی وبا ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، ملک بھر میں لاک ڈاؤن چل رہا تھا اور ہم جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے تھے، میری طبعیت خراب ہوئی تو جیل کے عملے نے میرے ٹیسٹ کروائے، جب ٹیسٹ کا رزلٹ آیا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کو کورونا ہے۔‘

حمزہ شہباز نے کہا کہ ’میں پہلے ہی اکیلا رہ رہا تھا، مجھے تنہائی مزید محسوس ہونے لگی، طبی سہولیات کا جیل میں فقدان تھا۔ اس رات میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شاید اب میں زندہ نہ رہوں۔ مجھے طرح طرح کے خیال آنے لگے، کورونا کے دنوں میں ملاقاتیں بھی کم ہوتی تھیں، بیماری کی وجہ سے عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ جسم میں ایسے درد ہوتا تھا کہ جیسے ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوں۔ میں 2 دن ایسے ہی نڈھال جیل میں پڑا رہا، کچھ دوائیاں تو ملتی رہیں لیکن مکمل نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہونےوالا ہے۔‘

انہوں نے بتایا  کہ والد شہباز شریف بھی جیل میں تھے، بھائی سلمان شہباز لندن میں تھے، میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! تو ہی صحت دینے والا، زندگی دینے اور لینے والا ہے، مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما، جیسے ہی اللہ سے دعا کی میری صحت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی، مجھے اس بیماری سے  نجات پاتے ہوئے 7 دن لگے، بس اللہ نے میری جان بچا دی لیکن میں یہ جان چکا تھا کہ اب میرا بچنا مشکل ہے۔‘

’جیل میں مجھے میری بیٹی بہت یاد آتی تھی‘

حمزہ شہباز شریف نے بتایا کہ ان سب چیزوں کے دوران مجھے اپنی بیٹی کی بہت یاد آتی تھی وہ زیر علاج تھی، اس کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میرا والد کہاں ہے، میں جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا تھا۔ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی تھی۔ میں اب بھی کہتا ہوں کہ اگر میرے اوپر اب بھی ایک پائی کی کرپشن بھی ثابت ہوتی ہے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ اللہ نے مجھے سرخرو کیا اور اب میں باہر ہوں۔ جنہوں نے مجھے اور میرے والد کو جیل بھیجا تھا، اب وہ خود جیل میں ہیں۔‘

حمزہ شہباز نے بتایا ’جیل میں اپنی بیٹی کو یاد کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ وہ جاگ گئی ہو گی اور بولتی ہوگی کہ بابا! آپ کہاں ہیں؟ بابا آپ کہاں ہیں؟ میرے کان بے تاب ہوتے تھے کہ میں اپنی بیٹی کی یہ آواز سن سکوں۔ وہ زیر علاج تھی اور میں جیل میں تھا۔ جب کوئی گھر سے ملنے آتا تھا تو میں اپنی بیٹی کی خیریت دریافت کرتا تھا۔‘

سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ’مجھے 22 سال بعد اللہ نے اولاد سے نوازا تھا اور بڑی دعاؤں سے اللہ نے مجھے بیٹی کی رحمت سے نوازا ہے، اب میں وہ دن یاد کرتا ہوں تو افسردہ ہوجاتا ہوں، اب میری بیٹی ٹھیک ہے۔ میں اب اس کے ساتھ کافی وقت گزارتا ہوں۔‘

حمزہ شہباز نے بتایا کہ میں پہلے بھی اور اب بھی پاکستان کی بہتری کی بات کرتا ہوں۔ میں زیادہ لمبے چوڑے وعدے نہیں کرتا جو میرے لیے پورے کرنا ممکن نہ ہوں۔ میں اپنی عوام کے لیے کچھ کروں گا، مجھے غریبوں کا احساس ہے، غریب کے بچے کی فکر ہےَ‘

انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعلی بنا تو سوچا تھا دیانت داری سے عوام کو سہولیات دوں گا مگر سسٹم نے مجھے زیادہ دیر چلنے نہ دیا۔ اب بھی ارادہ ہے کہ اگر اللہ نے دوبارہ موقع دیا تو ضرور پاکستانی عوام کی خدمت کروں گا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

اسلام آباد پولیس جنید اکبر اور دیگر کی گرفتاری کے لیے کے پی ہاؤس پہنچ گئی

ہندو برادری کے افراد کو داخلے سے روکنے کی بات درست نہیں، پاکستان نے بھارتی پروپیگنڈا مسترد کردیا

کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟

پارلیمنٹ ہاؤس سے سی ڈی اے اسٹاف کو بیدخل کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں، ترجمان قومی اسمبلی

ترکی میں 5 ہزار سال پرانے برتن دریافت، ابتدائی ادوار میں خواتین کے نمایاں کردار پر روشنی

ویڈیو

کیا پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات ایک نیا موڑ لے رہے ہیں؟

چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری

ورلڈ کلچرل فیسٹیول میں آئے غیرملکی فنکار کراچی کے کھانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

کالم / تجزیہ

ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر

میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟

کیا اب بھی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟