ٹیم بنانا کوئی کپتان سے سیکھے

بدھ 15 نومبر 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بہت پہلے سنا تھا کہ کپتان سے بہتر کوئی ٹیم نہیں بنا سکتا۔ پہلے یقین نہیں آیا مگر کپتان نے اپنی لاجواب پرفارمنس سے پوری قوم کو یقین دلا دیا۔ پہلے ہم سمجھے کہ کپتان کی اصل ٹیم جاوید میانداد، وسیم اکرم اور انضمام الحق ہیں لیکن کپتان نے انیس سو بانوے کے ورلڈ کپ کا سارے کے سارا کریڈٹ اپنی جھولی میں ڈال لینے کے بعد قوم کو یہ درس دیا کہ باقی ٹیم تو ’خواہ مخواہ‘  ہے، اصل میں ورلڈ کپ تن تنہا کپتان نے جیتا ہے۔ یعنی کپتان نے اپنی بنائی ہوئی ٹیم کا خود ستیاناس کر دیا۔

تب اہل خرد کو پتہ چلا کہ کپتان کی اصل ٹیم یہ نہیں ہے لیکن نعرہ اس وقت بھی یہی معروف تھا کہ کپتان سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔ یہی ہے وہ جوہر شناس جو مٹی میں سے گوہر کو پہلے تلاش کرتا ہے پھر اس کی تراش کرتا ہے اور پھر بے لوث ہو کر اس کو خراج پیش کرتا ہے۔

بانوے کی کرکٹ ٹیم کے بہت سے کھلاڑی آج تک اس خراج کے منتظر ہیں۔ آج تک توصیف کے اس لمحے کے خواہاں ہیں جو ان کا حق تھا مگر کپتان نے ورلڈ کپ کے ساتھ ان کا حق بھی فضا میں اچھال دیا۔

پھر کپتان نے فیصلہ کیا کہ ایک کینسر ہسپتال بنایا جائے۔ ساری قوم کپتان کے ساتھ ہسپتال بنانے میں جت گئی۔ ایک دفعہ پھر نعرہ بلند ہوا کہ کینسر ہسپتال کے لیے کپتان سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔

عورتوں نے اپنے زیور بیچے، بچوں نے پاکٹ منی جمع کرائی۔ اہل ثروت نے زمین  خان کے نام کی، کسی نے کروڑوں دان کیے،  کسی نے لاکھوں جمع کرائے لیکن کپتان کی لازوال ٹیم سے ستر کروڑ روپے اکٹھے نہ ہوئے جو اس وقت ہسپتال کی لاگت تھی۔

عین اس موقع پر میاں نواز شریف سے التماس کی گئی۔ انہوں نے پچاس کروڑ روپے اور زمین شوکت خانم ہسپتال کے لیے عطیہ کی۔ اس عطیے کے بغیر شوکت خانم ہسپتال معرض وجود میں نہیں آ سکتا تھا۔

نواز شریف نے جب اعلان کیا تو سب کو گمان ہوا کہ اب کپتان کی اصل ٹیم سامنے آ چکی ہے۔ اب سیاست میں عمران خان، نواز شریف کے احسانات کا بدلہ چکائے گا، دونوں ساتھ مل کر وطن کی فلاح کے لیے کام کریں گے لیکن یہاں پھر کپتان نے عوام کو سرپرائز دیا۔

اپنے محسن کو گالی دی، اس کی شخصیت کو تختہ مشق بنایا، اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کے احسانات کے بغیر شوکت خانم کینسر ہسپتال نہیں بن سکتا تھا۔

اس وقت ہمیں پتہ چلا کہ یہ وہ ٹیم نہیں جس کا اس عالم کو انتظار تھا۔ یہ تو بس جزوقتی کام تھا۔ اصل کارہائے نمایاں  بعد میں  واشگاف ہوں گے لیکن اس وقت بھی کپتان کی چال بازی پر یہی منترا پڑھا گیا کہ ٹیم بنانا بس کپتان ہی کو آتا ہے۔ اس سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔ لوگ سوچتے رہے کیا اپنے محسن کے خلاف بات کرنے سے ٹیم بنتی ہے؟ یہ معمہ کچھ عرصہ بعد مزید کھلا۔

دوہزار اٹھارہ کا موسم آ گیا۔ خان صاحب کا جنون جوبن پر تھا۔ ہر محکمہ خان کے خدمت میں جٹا ہوا تھا۔ خان کی مسکراہٹ سے میڈیا کی صبح اور خان کے جلال سے شام ہوتی تھی۔

محکمہ بھی اس شدت سے ایک پیج پر تھا کہ اس کی مثال اس چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ جلالی تجزیہ کار خان کی عظمت کے قصیدے پڑھنے پر بضد تھے۔ ہیجانی اینکرز خان کی حقانیت کی دن رات گواہی دے رہے تھے۔ اسد عمر کپتان کے دست راست تھے اور معیشت کے مرد بحران کہلاتے تھے۔ شاہ محمود خارجہ امور کے چیمپئن تھے، علیم خان پنجاب کی سیاست کے شہزادے تھے، جہانگیر ترین خان کے یار غار تھے۔ فواد چوہدری خان کے ہر لمحہ ہم رکاب تھے۔

بتایا گیا خان نے سب سے اچھی ٹیم بنا لی ہے۔ دو سو ماہرین اس میں شامل ہیں۔ یہ اسد عمر وغیرہ تو دیگ کے چند دانے ہیں۔  دیگ ہی سونے کی ہے اور سارے چاول ہی سنہری ہیں۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کپتان برسر اقتدار آ گیا۔ اور پھر اسد عمر کی لیاقت کا پول کھل گیا۔ شاہ محمود خارجہ میں ناکام ہو گئے، فواد چوہدری بس گالی دینے کے لیے رہ گئے۔ علیم خان کو خان نے  بقلم خود جیل میں ڈلوا دیا۔ جہانگیر ترین کو  نااہل کروا دیا۔ کپتان کی ٹیم بکھر سی گئی۔ ساری دلیلوں کا دلیہ بن گیا لیکن کہا اس وقت بھی یہی گیا کہ کپتان سے بہتر ٹیم کوئی بنا سکتا۔

خلقت کئی دہائیاں منتظر رہی کہ آخر وہ کون سی ٹیم ہے جس سے بہتر کوئی اور ٹیم نہیں ہو سکتی۔ ابھی تک تو جو ٹیم بنی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ جو چال چلی اپنے ہی منہ پر پڑی۔ جو گڑھا کھودا اس میں کپتان خود دھڑام سے گر گیا۔ آخر وہ نابغہ روزگار ٹیم کب منصہ شہود پر آئے گی؟ جس کا وعدہ تھا۔

پھر ہر دور کی طرح کپتان کا دور حکومت بھی ختم ہو گیا۔ برسوں تک مثبت رپورٹنگ کرنے والے میڈیا نے کھل کر سانس لیا۔ عجیب عجیب سے اسکینڈل سامنے آنے لگے۔ کپتان کے وسیم اکرم پلس کی نااہلی کے چرچے ہونے لگے، فرح گوگی کا نام چاروں اطراف گونجنے لگا، بشریٰ بی بی کی فرنٹ مین معروف ہونے لگی۔ بڑے پراپرٹی ٹائیکون کی صاحبزادے پر الزام آنے لگے۔ تب خلقت خدا کو سمجھ آئی کہ وہ کون سی ٹیم تھی جس کا انتطار ہو رہا تھا۔

غور تو کریں۔ عثمان بزدار جیسے کا انتخاب کوئی اور کر سکتا تھا؟ فرح گوگی کے علاوہ کوئی اور عثمان بزدار کو ’گھگو گھوڑا‘ بنا سکتا تھا۔ فرح کے سارے کام خان کے گھر سے ہو رہے تھے۔ گھر میں کپتان اس سارے دھندے سے بے خبر بھی نہیں تھے کیونکہ اس کی خبر تو ’ادارے‘ کی جانب سے دے دی گئی تھی۔

جناب! یہ تھی وہ ٹیم جس نے چوکھا رنگ چڑھایا، جس نے کرپشن کو ہنر بنایا، جس نے ملک اور معیشت کی کمر پر لات ماری دی مگر کپتان کی ٹیم کی لاج رکھ لی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp