خیبرپختونخوا میں مقدمات کی ناقص تفتیش پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ ناقص تفتیش خیبرپختونخوا میں ہوتی ہے۔
اسسٹنٹ پروسیکیوٹر جنرل کی جانب سے قتل کے مقدمے میں پیش ہونے والے ڈی ایس پی کو ڈی ایس پی صاحب کہنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی حکمنامے میں لکھوایا ہے کہ آئندہ کسی سرکاری افسر کو صاحب نہ کہا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صاحب صاحب کہہ کر آپ لوگوں نے ان کے دماغ خراب کر دیے ہیں، ایک درخواست دے دیں کہ ہمیں آزادی نہیں چاہیے۔
اگست 2021 میں 10 سالہ بچہ حمزہ غائب ہو گیا، بعد ازاں اس کی لاش ملی، 2 رشتے داروں کے بیان پر پشاور پولیس نے موٹر مکینک جاوید کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ ٹرائل اور ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد ملزم نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگست 2022 میں 2 رشتے داروں کے کہنے پر پولیس نے ملزم جاوید کے خلاف ایف آئی آر درج کردی اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔
عدالتی حکمنامے میں چیف جسٹس نے لکھا کہ ڈی ایس پی اسکندر شاہ اور تفتیشی افسر اسلام شاہ پشاور سے سفر کر کے اسلام آباد آ گئے، لیکن ای میل، واٹس ایپ کی سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھایا اور متعلقہ مقدمے کی دستاویزات عدالت میں پیش نہیں کیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کا معیار اتنا ناقص ہے، ایک بچہ مر گیا اور کسی کو پرواہ نہیں کیونکہ غریب کا بچہ تھا، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تفتیش میں موت کی وجہ تک نہیں لکھی گئی کہ بچے کی موت ڈوبنے سے ہوئی یا کسی اور وجہ سے۔
چیف جسٹس نے حکمنامے میں لکھوایا کہ اسسٹنٹ پروسیکیوٹر جنرل نے عدالت میں بیٹھ کر مقدمے کی تیاری کی، یہ سنجیدگی کا عالم ہے! دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈی ایس پی اسکندر شاہ کو مخاطب کرتے ہوئےدریافت کیا کہ ان کا پیٹ کیوں اتنا نکلا ہوا ہے، پہلے ایک بیلٹ ہوتی تھی، آپ لوگوں کی کوئی تربیت نہیں ہوتی۔
بعد ازاں عدالت نے قتل کے مقدمہ میں نامزد ملزم جاوید کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے مالیت کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیدیا۔