پاکستان میں نجی فارما کمپنی کے کھانسی کے سیرپ میں نقصان دہ اجزاء کی تصدیق پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او ) کی جانب سے الرٹ جاری کیا گیا ہے۔
کھانسی کا یہ شربت پاکستان بھر میں بھی سپلائی کیا جا چکا تھا جس کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈراپ) نے بھی نقصان دہ اجزا والے کھانسی کے شربت مارکیٹ سے اٹھانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ کھانسی کا یہ شربت مالدیپ اور فجی سمیت 4 ممالک کو برآمد کیا گیا۔ جس میں مالدیپ کی شکایت کے بعد ڈبلیو ایچ او نے اس شربت میں الکوحل کی مقدار زیادہ ہونے کی تصدیق کی جس پر پنجاب حکومت نے لاہور کی نجی فارما کمپنی کے 5 سیرپس میوکورڈ، الکوفن، الرگو، امیڈون، زن سیل پر پاپندی عائد کر دی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں تمام فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے کا اختیار ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے پاس ہے، پاکستان میں کسی بھی دوا کو تیار یا امپورٹ کرکےمارکیٹ میں بیچنے کی اجازت بھی یہی ادارہ دیتا ہے۔
کھانسی کے شربت میں الکوحل کی مقدار کی زیادتی کا اندازہ کیوں نہ ہو سکا؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’ڈراپ‘ کی جانب سے دوا کو لیبارٹری میں چیک کیا گیا اور اگر کیا گیا تو پھر دوا میں الکوحل کی مقدار کی زیادتی کا اندازہ کیوں نہ لگایا جا سکا؟
اس حوالے سے وی نیوز نے جب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے ترجمان سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ایک عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو کم درجے کی ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے، کیونکہ اس طرح کی غلطیاں پاک فارما انڈسٹری کے لیے عالمی سطح پر شرمندگی کا باعث بن سکتی ہیں،’ڈراپ ‘ کو اس کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔
فارما سیوٹیکل کمنپیوں کی انسپیکشن کنونشن کے مطابق ہونی چاہیے
انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے بعد یقینی طور پر عالمی منڈی میں پاکستان کے بارے میں برا تاثر جائے گا۔ جو نہ صرف پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنے گا بل کہ پاکستان کی دیگر مصنوعات پر بھی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فارما انڈسٹری کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ گڈ مینو فیکچرنگ پریکٹیسز کے سرٹیفیکیٹ، کمپنیوں کی رجسٹریشن کے ساتھ تمام تر ضروری ہدایات کو بھی مد نظر رکھا جائے اور چانچ پڑتال (انسپیکشن ) کا معیار بھی فارماسیوٹیکل انسپیکشن کنونشن کے مطابق ہونا چاہیے۔
’ڈراپ‘ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا، فضل ربی
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فضل ربی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈراپ‘ اپنا کام بلکل بھی ذمہ داری سے نہیں کرتی، جبکہ ’ڈراپ‘ کو ان معمالات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وہ کوتاہیاں ہیں جو کسی کی جان بھی لے سکتی ہیں۔
دوائی میں الکوحل کی زیادتی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے، ڈاکٹر فضل
انہوں نے مزید کہا کہ سیرپ میں جو ایتھلین گلائکول اور ڈائی ایتھلین گلائکول نامی کثافتیں پائی گئیں ہیں یہ الکوحل کی اقسام ہیں، دوائی میں الکوحل کی حد سے زیادہ مقدار خاص طور پر جگر کے لیے بہت خطر ناک ہو سکتی ہے، اس سے جگر کام کرنا چھوڑ سکتا ہے، اس کے علاوہ انسان دل کے امراض میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے، ذہنی الجھن، قے ، سانس لینے میں شواری بھی ہو سکتی ہے۔
ترجمان وزارت صحت کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں جعلی آن رجسٹرڈ اور مہنگی ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، ملک بھر میں چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کیخلاف آئینی ہاتھوں سے نمٹیں گے، وزارت صحت
ان کا کہنا تھا کہ اسی سلسلے میں بلوچستان کے علاقے ’حب ‘ میں کارروائی کرتے ہوئے غیر ممنوعہ سرنجوں کی بھاری مقدار قبضہ میں لی گئی ہے، کراچی ڈیفنس میں ’ڈراپ‘ کی ٹیم نے بلیک میں مہنگی ادویات فروخت کرنے پر میڈیکل اسٹور سیل کر دیا۔
ڈاکٹر ندیم جان نے کہا کہ ملک بھر سے جعلی آن رجسٹرڈ ادویات کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے، غیر قانونی کاموں میں ملوث افراد کے خلاف ’ڈراپ‘ ایکٹ کے مطابق سخت کارروائی ہو گی۔ منظور شدہ قیمت سے زیادہ وصول کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے بھارت میں تیار کردہ کھانسی کے متعدد سیرپس میں موجود اِنہی کثافتوں کی زیادتی کے باعی کئی بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔