’’14 دسمبر 1958 کی یخ بستہ صبح تھی جب ایک کالی گاڑی مجھے اسکول سے لیکر گھر پہنچی تھی۔ عجیب منظر دیکھا کہ کچھ اجنبی افراد نے آپ کو پکڑ رکھا تھا، جو آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ آپ گزشتہ روز ہی لندن سے لوٹے تھے۔ آپ کو پھر کھو دینے کے خیال سے میں شدید ذہنی صدمے میں تھی، میں چلائی آپ کہاں جارہے ہیں ابو، آپ کب واپس آئیں گے؟ لیکن آپ نے مڑ کر میری کُرلاتی نم آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا۔ بنا کسی وضاحت کے آپ سے دُوری کا دکھ زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔‘‘
منزہ ہاشمی کے اپنے والد (فیض احمد فیض) کے ساتھ اس مکالمے میں 40 برس کی مسافت حائل ہے۔ منزہ ہاشمی اپنی کتاب (Conversations with my father) کے بارے میں کہتی ہیں ’فیض صاحب نے مجھے بہت سے خط لکھے، وہ ہم سے دور رہے، کبھی جیل میں، کبھی جلا وطنی میں۔ دنیا کے ہر کونے سے خط یا پوسٹ کارڈ بھجواتے تھے۔ اگرچہ فاصلے جذباتی اور جسمانی تھے، لیکن انہیں ہماری سالگرہ سمیت تمام دوسرے اہم دن یاد رہتے تھے۔ ایک بار لکھا تھا ’تمہارا پچپن میں نے مِس کر دیا کہ میں جیل میں تھا۔‘
’کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب‘
منزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اب جبکہ میں ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہوں۔ جن دنوں کورونا کے باعث گھر میں محصور تھی، فراغت کے ان لمحات میں خطوط میرے ہاتھ لگ گئے اور انہیں پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ کیوں نہ یہ فیض کے پرستاروں سے شیئر کیے جائیں۔ اگرچہ خطوط فیض نے مجھے لکھے لیکن فیض تو سب کے ہیں۔ کچھ کرنے کی ٹھان لوں تو پھر وہ کرکے دم لیتی ہوں، یہ جبلت مجھے والدین سے ورثے میں ملی ہے۔
چھوٹے بیٹے عدیل ہاشمی نے مشورہ دیا کہ محض خطوط شائع کرنے سے کتاب بوریت کا شکار ہو جائے گی، آپ ان خطوط پر اپنا ردعمل دیں اور دل کھول کر رکھ دیں، پھر ایسا ہی ہوا۔ لیکن کچھ سینسر شپ بھی کرنا پڑی۔ 50 کے قریب خط شائع کیے، کچھ بچا لیے۔
’تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں‘
9 مارچ 1951 کو فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ چار، ساڑھے 4 برس انتظار، آس اور امید میں گزرے، 20 اپریل 1955 کو انہیں رہائی ملی تھی۔ ماضی کی یاد کے زخم بھرنے لگے تو خطوط کے بہانے انہیں یاد کیا پھر لکھنے بیٹھی تو یادوں کی رَو میں لکھتے چلی گئی۔ اپنا لکھا ہوا دوبارہ نہیں پڑھتی، تاہم میری دوستوں نے اس سلسلے میں میری بہت مدد کی۔
پھر یہ پشیمانی بھی لاحق تھی کہ ذاتی مراسلے شیئر کر رہی ہوں لیکن دوستوں نے حوصلہ بڑھایا کہ فیض بطور والد کیسے تھے؟ وہ آپ اور سلیمہ ہاشمی کے علاوہ اور کون بتا سکتا ہے۔ یوں جو باتیں فیض صاحب سے نہیں کرسکی تھی وہ سب کردیں۔
’جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے‘
فیض صاحب کے خطوط، ان کی ٹائم لائن، پھر ان کا 40 برس بعد جواب، جن میں گلے شکوے اور پیار بھرا ہے۔ خطوط کا سیاق و سباق بھی بتانا ضروری تھا۔ خطوط میں جن شخصیات کا ذکر آیا، ان کا تعارف بھی کروایا گیا ہے۔ اس کتاب میں جگ بیتی بھی ہے اور آپ بیتی بھی، آپ اسے کتھارسس بھی کہہ سکتے ہیں، پڑھنے والے اس کتاب کو جو ٹائٹل دینا چاہیں دے دیں۔ اس میں اپنے والد سے کہی ان کہی سب باتیں شامل ہیں، اور یہ بھی کہ مجھے ان سے کیا کیا شکایتیں تھیں۔
40 برس پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) پر کام کیا، وہاں فیض صاحب پر پابندی تھی اور میں وہاں تھی۔ وہاں ضیاء دور کے 10 گیارہ برس بہت مشکل میں گزارے۔ ’فیض کی بیٹی ہے‘ اس جملے کو لیکر مجھے بہت تنگ کیا گیا۔ ضیاء دور میرے لیے ہی نہیں، پورے ملک کے لیے خوفناک تھا۔
’بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا‘
جب بھی کبھی کوئی شکایت کرتی تو لکھتے تھے کہ دفتری سر درد کا تو کوئی علاج نہیں، جہاں تک ہو سکے ’سوئچ آف‘ کرلیا کریں۔ کہتے تھے’ہمارا نسخہ اپناؤ‘ وہ ہم کا صیغہ استعمال کرتے تھے کہ خود کو دنیا کا فرد کہتے تھے۔ ’سوئچ آف‘ کے حوالے سے فیض صاحب کہا کرتے تھے کہ بیروت میں قیام کے دوران جب رات گئے بمباری کی آوازیں آتیں تو روم میٹ خوفزدہ رہتے جبکہ میں منہ پر تکیہ رکھ کر سوجایا کرتا تھا، سوئچ آف کر لیتا تھا۔ یہ آرٹ سب کو سیکھنا چاہیے۔
کتاب کے پیش لفظ میں زہرا نگاہ لکھتی ہیں کہ ’مجھے پورا یقین ہے کہ تمہارے خط فیض صاحب تک ضرور پہنچ گئے ہوں گے۔ اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ بھی آتی ہوگی۔‘ اور پھر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’ہمارے جانے کے بعد ہماری میزو واقعی بڑی ہوگئی ہے۔ اب تو اسے سوئچ Off کرنا اور on کرنا بھی آگیا ہے۔‘ پھر انہوں نے سگریٹ بجھا دیا ہوگا۔ معلوم نہیں جنت میں سگریٹ کی اجازت ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر نہیں ہے تو ہوسکتا ہے انہیں اسپیشل پرمیشن مل گئی ہو۔‘
’ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے‘
یہ فیض صاحب کی وہ زندگی ہے جو دنیا نے نہیں دیکھی، میں نے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی جو فیض کرنا چاہتے تھے، ان کے فٹ پرنٹ فالو کیے ہیں۔ میں کہاں کہاں نہیں گئی؟ جب وہ جیل میں تھے، میں 8 برس کی تھی، میں ساہیوال جیل بھی گئی جہاں وہ اسیر رہے۔ میں نے حضرت امام حسینؑ کے روضے پر جا کر فیض صاحب کا سلام بھی پڑھا۔
فیض کے تمام خطوط اردو میں ہیں جبکہ منزہ ہاشمی نے ان کا جواب اپنی مادری زبان، انگریزی میں دیا ہے۔ کہتی ہیں ’مجھے دادی اور پھوپھو نے پنجابی سکھائی تھی۔ فیض شاید اس لیے اردو لکھتے تھے کہ میں مادری زبان کے ساتھ ساتھ اردو پر بھی توجہ دوں۔ کیوں کہ گھر میں انگریزی زیادہ بولی جاتی تھی۔ والد صاحب کچھ بھی لکھتے تھے تو ماں کو انگریزی میں سمجھاتے تھے۔ اب دوستوں اور پرستاروں کی پرزور فرمائش پر کتاب کا اردو ترجمہ بھی جلد آ جائے گا۔
’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘
میرے دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا علی مدیح ہاشمی ڈاکٹر ہے، ماہر نفسیات ہے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر ہے۔ امریکا اور پاکستان میں پرائیویٹ پریکٹس بھی کر رہا ہے۔ لاہور کے مینٹل اسپتال کا سی ای او بھی ہے۔ بہت اچھا لکھاری ہے، 2 کتابوں کے تراجم کیے ہیں اور اپنے نانا (فیض احمد فیض) کی سوانح عمری (Love and Revolution) بھی انگریزی میں لکھی جو فیض پر لکھے جانے والی بہترین اور مستند کتاب ہے۔
چھوٹا بیٹا عدیل ہاشمی آرٹ اور میڈیا سے وابستہ ہے، فیض فاؤنڈیشن کا سیکریٹری جنرل بھی ہے۔ اپنے نانا کے پیغام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ بہت اچھی شاعری کر رہا ہے۔ اس حوالے سے زہرا نگاہ، یاسمین حمید اور ڈاکٹر عارفہ سیدہ سے مشورے لے رہا ہے۔
’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘
زندگی میں پیسے صرف فیض صاحب سے مانگے۔ ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ پیسے بھیجنے میں تاخیر کے باعث سود کے ساتھ لوٹا رہا ہوں، ماں کو مت بتانا۔ پیسے ابو سے ہی مانگنے تھے، ماں کے پاس تو ہوتے نہیں تھے۔ ایک خط میں لکھا کہ ’اگر تمہیں ہاسٹل کا کھانا پسند نہیں تو ہوٹل سے منگوا لیا کرو، اپنی ماں کی طرح پیسوں کی فکر مت کیا کرو۔‘ اب بھی جب کبھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ جانے کیسے انتظام ہوجاتا ہے، ان کی رائلٹی کے پیسے آ جاتے ہیں۔
میری والدہ سمیت کبھی کسی نے نہیں کہا کہ انہوں نے اونچی آواز میں بھی بات کی ہو، گالی تو دور کی بات وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہتے تھے وہ بڑا ’پاجی‘ ہے۔ وہ میرے خط محفوظ نہیں رکھ پائے، اس لیے کہ وہ زیادہ سفر میں ہی رہے۔
ایک بار میں نے انہیں لکھا کہ آپ بہت دور ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ کی خدمت کروں، تو انہوں نے جواب دیا کہ خدمت کی ضرورت تو شاید جب پڑے گی، اگر اور دس 20 برس جینا پڑا اور ہاتھ پاؤں جواب دے گئے، پھر ہم گاؤں چلے جائیں گے، جہاں مراثی حقہ تازہ کرے گا اور مراثن پاؤں دبایا کرے گی۔
’مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں‘
فیض احمد فیض کی ادبی خدمات کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ 1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا تھا۔ 1976 میں ادب کے لوٹس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ 1990 میں حکومت پاکستان نے ’نشان امتیاز‘ سے نوازا۔ جبکہ ان کے صد سالہ یوم پیدائش پر 2011 کو ’فیض کا سال‘ قرار دیا گیا تھا۔
فیض کی تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادیٔ سینا، شام شہر یاراں اور میرے دل مرے مسافر کے علاوہ نثر میں میزان، صلیبیں مرے دریچے میں اور متاع لوح و قلم شامل ہیں۔ انہوں نے 3 فلموں ’قسم اس وقت کی‘۔ ’جاگو ہوا سویرا‘ اور ’دور ہے سُکھ کا گاؤں‘ کے لیے گیت بھی لکھے تھے۔
فیض 13 فروری 1911 کو پنجاب کے ضلع نارووال کی اک چھوٹی سی بستی کالا قادر (اب فیض نگر) کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1984 میں انہیں ادب کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن انعام کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی 20 نومبر 1984 کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا