سپریم جوڈیشل کونسل میں عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سماعت کے دوران بڑی پیشرفت ہوئی ہے اور شکایت کنندگان کے دلائل مکمل ہو گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق شکایت کنندگان نے تمام شواہد اور متعلقہ دستاویزات کونسل کے سامنے رکھیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو دوسرا شوکاز نوٹس جاری کرنے کی کارروائی کل تک ملتوی کر دی۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرصدارت سپریم کوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایت درج کرانے والوں نے دلائل دیے۔
کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اور اس کے بعد مزید سماعت کل دن 3 بجے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت کو مسترد کر دیا گیا تھا جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے خواجہ حارث پیش ہوئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وکیل خواجہ حارث نے جسٹس مظاہر نقوی کا خط کونسل میں پیش کیا تھا۔ خط میں سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست کے فیصلے تک کونسل کی کارروائی موخر کرنے کی استدعا کی گئی۔
جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف درخواست گزار آمنہ ملک سوالات کے درست جواب نہیں دے سکی تھیں اور انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ان کی معلومات درست نہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والے افراد کو بھی طلب کر رکھا تھا اور جسٹس نقوی کو بھی جواب کا موقع دیا گیا، ان کی طرف سے خواجہ حارث نے موقف پیش کیا۔
دوسری جانب کونسل نےجسٹس مظاہر نقوی کے نام پر لاہور میں 2 جائیدادوں کا مکمل ریکارڈ طلب کر رکھا ہے، گلبرگ تھری لاہور میں پلاٹ نمبر 144 بلاک ایف ون کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے، اس کے علاوہ لاہور کینٹ میں پلاٹ نمبر 100 سینٹ جانز پارک کا بھی مکمل ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم کورٹ میں پٹیشن
اِدھر جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن میں موقف اختیار کیا ہے کہ جس جائیداد کو لے کر سپریم جوڈیشل کونسل میں میرے خلاف شکایت بھیجی گئی وہ جائیداد ڈیکلیئرڈ ہے اور اس کے لیے نا تو مجھے ٹیکس اور نا ہی رجسٹریشن اتھارٹیز کی جانب سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنی درخواست میں سوال اٹھایا ہے کہ ایک ڈیکلیئرڈ اثاثے کے خلاف کوئی ایسا شخص جس کا اس جائیداد کی خرید و فروخت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں وہ کیسے شکایت کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں چلنے والی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے اور میڈیا میں میری کردار کشی عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے لیے قائم ادارے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف شروع ہونے والی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جس میں ملک کے نامور وکلا سردار لطیف کھوسہ، خواجہ حارث احمد، مخدوم علی خان، سید علی ظفر اور سعد ممتاز ہاشمی ان کے مقدمے کی نمائندگی کریں گے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ ان کے خلاف 16 فروری 2023 سے بدنیتی پر مبنی مہم جاری ہے اور ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے جو کہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔
جسٹس نقوی نے لکھا ہے کہ جس انداز میں انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا وہ نا صرف شفاف ٹرائل بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بھی منافی ہے، جسٹس نقوی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کو جاری ہوئے اظہار وجوہ کے نوٹسز کے بارے میں ان کی مرضی کے بغیر پریس ریلیز جاری کی گئی جس سے ان کا میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا اور عوام میں ان کے خلاف منفی تاثر پھیلایا گیا۔
جسٹس نقوی کا اظہار وجوہ کے نوٹسز پر ابتدائی جواب
سپریم جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو ان سے متعلق شکایات کے حوالے سے اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے تھے، تاہم جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے 10 نومبر کو ابتدائی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ آئینی اعتبار سے کسی جج کو نوٹسز جاری کرنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کا متفقہ فیصلہ ضروری ہوتا ہے جبکہ میرے خلاف شکایات پر کونسل کے 3 اراکین نے شوکاز نوٹسز جاری کرنے کی حمایت کی۔
انہوں نے کہا ہے کہ دوسرے جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایات پر درخواست گزار آمنہ ملک کو نا صرف نوٹسز جاری کیے گئے بلکہ ان سے تحریری مواد بھی طلب کیا گیا جو میرے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا اور نا ہی وہ مواد مجھے مہیا کیا گیا جس کی بنا پر میں کوئی جواب تحریر کر سکوں اور میرے خلاف شکایات کے بارے میں بتایا نہیں گیا۔
اس کے علاوہ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر بھی اعتراضات اٹھائے تھے کہ اس کے چیئرمین چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ان کی بطور جج سپریم کورٹ نامزدگی کی مخالفت کی تھی، ان کے جنرل مشرف سنگین غداری مقدمے کے فیصلے کے خلاف تحریری نوٹ لکھا تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی رہے جس میں ان (جسٹس نقوی) سے متعلق ایک آڈیو بھی زیر تفتیش تھی اور اسی حوالے سے انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس نعیم اختر افغان کی سپریم جوڈیشل کونسل میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا تھا کیونکہ وہ بھی آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے رکن تھے۔