7 روز میں لاپتہ بلوچ طلبا پیش کریں ورنہ وزیراعظم ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم

بدھ 22 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاپتہ بلوچ طلبا کمیشن عمل درآمد کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ بلوچ طلبا کی عدم بازیابی پر وزیراعظم کو 29 نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ جبری گمشدگی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد  کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی۔ بلوچ لاپتہ طلبا کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔

اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے وزراء کمیٹی کے اجلاس کی رپورٹ پیش کی۔

ایک صفحے پر مشتمل چھ نکات کی رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ دیکھ کر جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کیا اور رپورٹ کی کاپی واپس کردی۔ واضح رہے کہ وفاق کی جانب سے 3 وزراء کی کمیٹی  تشکیل دے رکھی ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کی کمیٹی سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کر رکھی تھی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کے لیے یہ شرم کا مقام ہے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں احساس ہونا چاہیے تھا کہ یہ بلوچ طلباء کا معاملہ ہے۔

عدالت نے وزرا کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کو گیارہ بجے طلب کیا اور سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی توعدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا ’دوگل صاحب! پہلے تو آپ کو بتادیں کہ یہ کیس ہے کیا تاکہ صورتحال واضح ہو جائے، آج اس کیس کی  اکیسویں تاریخ ہے، اس سے قبل جسٹس اطہر من اللہ جو چیف جسٹس تھے، کے پاس یہ کیس تھا۔ عدالت کے حکم پر کمیشن بنا ، کمیشن قائم ہوا، اس میں سوالات پیش کیے گئے، معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا گیا جبری گمشدگیوں کا معاملہ تھا، صرف ایک کا نہیں 51 بلوچ طلباء کا معاملہ تھا، ہم نے ملک کے وزیر اعظم کو معاملہ بھیجا، وزیر اعظم کو خود احساس ہونا چاہیے تھا۔ ہم سمجھے کہ وہ آکر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں۔ اگر ان کے خلاف کوئی کریمنل کیس تھا تو رجسٹرڈ کرتے‘۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’آپ رپورٹ پڑھیں جو ہمیں پیش کی گئی ہے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو بھی معاملہ ہوا متعلقہ وزارت دیکھتی ہے یا سب کمیٹی کے سامنے بھیجا جاتا ہے۔ کمیٹی پھر معاملہ وزیر اعظم اور کابینہ کے ساتھ شئیر کرتی ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ اس ہائی کورٹ نے وزیراعظم کو بلایا، جو کمیشن تھا اس میں کافی ہائی پروفائل لوگ شامل تھے، سب لکھا گیا، لیکن اس کے باوجود کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کمیشن کا اصل مقصد لاپتہ لوگوں کو بازیاب کرانا ہے۔ یہ عدالت کتنے ہی فیصلے دے چکی ہے، لاپتہ افراد کمیشن نے کوئی کام نہیں کیا، یہ بہت بڑا المیہ ہے، یہ کمیشن صرف عدالتوں کے فیصلوں کو بائی پاس کرنے کے لیے بنا ہے، عدالت نے تو اپنا کام کرنا ہے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے، آج اکیسویں تاریخ میں بھی ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں، ہم سمجھے آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہوں گی اور لوگ واپس آجائیں گے۔

عدالت نے قرار دیا کہ یہ اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے اور تھی کہ ریاست کہتی کہ اب وہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہیں، ہم بھی پچھلے کئی سالوں سے یہی دیکھ  رہے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا’ کیا ہم یہ معاملہ اقوام متحدہ کو بھیجیں، کیا اپنے ملک کی بے عزتی کروائیں؟

 اس کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ کمیشن کی سفارشات کے مطابق 51 لاپتہ بلوچ طلبہ پیش کریں ورنہ  وزیر اعظم پیش ہوں۔ ہم  وزیراعظم کو نوٹس جاری کریں گے،  وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو بھی طلب کریں گے،، وزیر انسانی حقوق کو بھی بلائیں گے، یہ کام ایگزیکٹو کا تھا لیکن وہ کام عدالت کر رہی ہے۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم اور وزراء کو طلب نہ کرنے کی استدعا کی تاہم جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ’ اس میں ایسی کوئی بات نہیں، سب مذاق بنایا جا رہا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کی اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہوگی کہ لوگ لاپتہ ہورہے ہیں!

عدالت نے استفسار کیا کہ وزارت دفاع سے کون ہے؟ جس پر وزارت دفاع کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا۔ عدالت نے حکم دیا کہ  وزیر دفاع کو کہیں اگلی سماعت پر پیش ہوں۔ ان کی پیشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر عدالت سے استدعا کی کہ وزرا کو نہ بلایا جائے۔ تاہم جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ’ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان کے حقوق کی بات کر رہے ہیں، 7 روز کا وقت دیتا ہوں، عمل درآمد کریں، لوگ لے کر آئیں ورنہ وزیراعظم ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

 

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp