پی ٹی آئی کی اپنے لیے کھڈے کھودنے کی مثالی صلاحیت

جمعرات 23 نومبر 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

الیکشن نزدیک ہیں۔ پاکستان میں موجود سفارتکار سرگرم ہوگئے ہیں۔ امریکی سفیر نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی ہے، وہ نواز شریف سے ملے ہیں اور استحکام پاکستان پارٹی کے جہانگیر ترین سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ آصف زرداری سے ملی ہیں، اس ملاقات سے پہلے وہ میاں نواز شریف سے بھی مل چکی تھیں۔ یہ روٹین کے روابط ہیں۔ سفارتکار براہ راست اپ ڈیٹ لے رہے ہیں اور صورتحال سمجھ رہے ہیں۔ وہ آئندہ فیصلوں اور اقدامات کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی نے ان بڑھتی ہوئی ملاقاتوں کو سازش سے جوڑ دیا ہے، یعنی سفیر صاحب گاڑی میں بریف کیس چھپا کر لے گئے ہیں۔ آصف زرداری نے پہلے سے بندے بٹھائے ہوئے تھے نوٹ گننے کے لیے۔ جیسے ہی گنتی پوری ہوئی تو زرداری صاحب نے کہا آج سے یہ ملک آپ کا ہوا۔ نواز شریف کو تو پیسے دینے کی بھی زحمت نہیں کی ہوگی کسی نے۔ انہیں تو بس یہی کہا ہوگا کہ دوڑ کر تو پھر آپ کو لندن ہی آنا ہے۔ یہ سن کر ہی میاں صاحب پہلے شرما اور پھر گھبرا گئے ہوں گے۔ آصف زرداری سے آدھی قیمت پر بیچ نکالا ہوگا پاکستان۔

جو سفارتکار پی ٹی آئی والوں کے بقول سازشیں کرتے پھر رہے ہیں، وہی سفارتکار پی ٹی آئی والوں سے بھی مل رہے ہیں۔ خود کریں تو سفارتکاری اور دوسرے کریں تو غداری۔ آپس کی بات ہے فواد چودھری ایک سفارتی تقریب میں ہی کپتان کے حق میں اندھا دھند بولنے پر دوبارہ چکے گئے ہیں۔ انسانی حقوق، جمہوریت، مقدمات، قید، انٹرویوز وغیرہ کے حوالے دے دے کر جذباتی خطاب کر رہے تھے جو حوالدار بشیر نے کان لمبا کر کے سن لیا۔

سفارتکار ٹس سے مس نہیں ہوئے مگر چودھری صاحب چکے گئے۔ اس بار ان پر کیس بھی سنا خاصا مزاحیہ بنایا گیا ہے۔ خیر، بے خبر تو مزے لے لے کر یہ بھی بتاتا ہے کہ محفل میں موجود کسی گورے نے پوچھا بھی کہ انکل آپ ہیں کس پارٹی میں، پی ٹی آئی تو چھوڑ چکے۔ چودھری صاحب نے ایسے احمقانہ سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ جس پارٹی میں ہوں ادھر سے الیکشن لڑ کر ووٹ نہیں نکلا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بے خبر الٹ پلٹ بولتا اور سفارتخانوں میں گھومتا رہتا ہے۔ اس کی باتوں پر میری طرح آپ بھی اعتبار نہ کریں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے اور رہنما بھی موجود تھے لیکن ان کے سیاپے میں وہ چس نہیں تھی جو چودھری صاحب کے انداز میں تھی۔

اب یہاں رک کر ذرا سوچیں کہ پی ٹی آئی والے باہر دوسری پارٹیوں کی ملاقاتوں کو تو سازش بتاتے ہیں۔ ہمیں ان کی بات پر مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام سے یقین بھی کرنا چاہیے۔ یہ ریاست مدینہ جدید کے معمار ہیں سارے۔ اپنی ملاقاتوں میں یہ خود منتیں فریاد کرتے ہیں۔ بلھے شاہ نے جیسے پیر منایا تھا ویسے یہ نچ کے سفارتکار منانے کو بھی تیار ہو جائیں۔ لیکن یہ سفارتکار پاکستان ہدوانے لگا کر بیٹھے ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کو اندر باہر سے نہیں پہچان جاتے ہوں گے کہ یہ کیسے ہیں؟ باہر یہ ہمیں سازشی بتاتے ہیں، اندر منتیں ترلے کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی نے بہت سیاسی غلطیاں کی ہیں۔ عدم اعتماد کو اسپورٹس مین سپرٹ سے قبول نہ کیا، سازش اور سائفر سے جوڑ دیا۔ اب وہی سائفر گوٹی گھوم کر خود پر فٹ ہورہی ہے۔  جلسے، جلوس، ریلیاں تو کیں، آئی ایم ایف اور مالیاتی اداروں سے ڈیل مذاکرات ناکام کرانے کو بھی سرگرم کوششیں کی۔ پھر آخر میں پیروں میں بندوق پھنسائی، اپنے گل چھرے بھی اڑا لیے اور 9 مئی کردیا۔

آپ جو کچھ کررہے تھے، دنیا اسے دیکھ رہی تھی۔ آپ کے حوالے سے تجزیے، اندازے اور جائزے لیے جارہے تھے۔ اپنی حرکتوں سے خود کو بے اعتبار ثابت کردیا۔ یہ سب کرتے ہوا یہ کہ کپتان کو اکسانے والے وہ سارے لوگ بھی بھاگ گئے جن کے مشورے پر یہ پالیسیاں بنتی تھیں۔ ان ظالموں کی زبانیں سیدھی ان کے کانوں کے ساتھ فٹ تھیں۔ کچھ سنا اور واہی تباہی بولنے لگے۔ جب ریاستی ڈنڈا چلا تو دوڑنے میں منٹ نہیں لگایا۔ یہ سب کرتے پارٹی اور لیڈر دونوں کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے باہر نکلنے کا راستہ موجود بھی ہے تو جلدی ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ پی ٹی آئی نے کہیں رک کر اپنی اصلاح نہیں کی۔ کپتان کے وکیل اب بھی عدالتوں سے زیادہ میڈیا پر بولنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی قانونی حکمت عملی کپتان کی راہ کھوٹی کررہی ہے اور وہ مزید پھنستا جارہا ہے۔

مشکل ہو تو اس سے نکلنے کے راستے بھی ہوتے ہیں۔ ان راستوں کی طرف جانے کے بجائے پی ٹی آئی اپنے لیے کھڈے کھودنے کی اپنی بے مثال صلاحیت پر ہی ساری توانائی لگا رہی ہے۔ شوق سے لگاتے رہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp