23 نومبر 1996ء کی صبح 11 بج کر 20 منٹ پر ایتھوپیئن ائیر لائنز کے طیارے نے 175 افراد کے ہمراہ ایتھوپیا کے دارالحکومت سے کینیا کے دارالحکومت کے لیے اڑان بھری۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک مسافر چلاتا ہوا جہاز کے کاک پٹ کی جانب بڑھا، “ہم نے سیاسی پناہ کے لیے آسٹریلیا جانا ہے، بصورتِ دیگر ہم جہاز کو بم سے اڑا دیں گے”۔
ہائی جیکرکے 2 ساتھی بھی کاک پٹ کی طرف لپکے اور پائلٹ کو جیسا کہا جائے ویسا کرنے کو کہا۔ پائلٹ اور جہاز کے عملے نے ہائی جیکرز کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کےپاس صرف اس فلائٹ کے لیے ایندھن ہے جبکہ آسٹریلیا جانے کے لیے جہاز کا ٹینک فُل چاہیئے۔ مگر ہائی جیکرز نے اس بات کو بہانہ سمجھا اور آسٹریلیا نہ جانے کی صورت میں جہاز کو تباہ کر دینے کی دھمکیاں دیتے رہے۔
پائلٹ نے جہاز کا روٹ بدلا مگر آسٹریلیا کی جانب جانے کے بجائے افریقہ کی ساحلی پٹی کے ساتھ اڑنے شروع کر دیا۔ جب ہائی جیکرز نے دیکھا کہ جہاز ابھی تک سمندر کے بجائے خشک زمین کے اوپر اڑ رہا ہے تو انہوں نے پائلٹ پر زور دیا کہ وہ جہاز کو مشرق کی طرف لے جائے۔ چار و ناچارپائلٹ نے جہاز کا رخ جزیرہ کومورو ز کی طرف کر دیا اور یہاں کے ائیرپورٹ پر لینڈنگ کرنے کی نیت سے گول چکر لگانے شروع کردیے۔ اس دوران جہاز کا ایندھن ختم ہو گیا اور اس کے دونوں انجن بند ہوگئے۔
دوسری جانب ہائی جیکرز لگا تار پائلٹ سے لڑ رہے تھے جس کے باعث وہ لینڈنگ کا پوائنٹ نہ دیکھ سکے اور ائیر پورٹ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ مجبوراً انہوں نے جزیرہ کے ساحل کےساتھ پانی میں ایمرجنسی لینڈنگ کی ٹھانی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ لہروں کے متوازی رخ پر لینڈنگ کریں جس سے جہاز ایک طرح سے پانی پر تیرنا شروع کر دیگا اور کم سےکم مزاحمت کے باعث نقصان بھی کم سے کم ہوگا۔ مگر بجائے یہ کہ جہاز پیٹ کے بل پانی کو چھوتا، اس کا بایاں انجن اور پَر پہلے پانی سے ٹھکرا گئےجس کی وجہ سے جہاز تیزی سے بائیں جانب گھوما اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
اس حادثے میں 125 مسافر بشمول ہائی جیکرز اور جہاز کا عملہ ہلاک ہوئے جبکہ پائلٹ بچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ہائی جیکرز نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 11 ساتھی ہیں لیکن اصل میں وہ 3 ساتھی تھے جن کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان تھی۔ ان میں سے 2 بے روزگار گریجوایٹ تھے جبکہ ایک ہائی جیکر نرسنگ کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا۔
آج کے روز 1984 ء میں ایک اور حادثہ پیش آیا تھا جب لندن کے مصروف ترین زیر زمین اسٹیشن، آکسفورڈ سرکس میں آگ لگی تھی۔ اس کی وجہ سے تقریباً 1000 مسافر دھوئیں سے بھری سرنگوں میں 3 گھنٹے تک پھنسے رہےتھے۔
23 نومبر 2002 ء کو نائیجیریا کے شہر کدونا میں منعقد ہونے والے ‘مس ورلڈ’ کے خلاف احتجاج ہوئے جنہوں نے فسادات کی شکل اختیار کی اور 250 کے قریب افراد کی ہلاکت کا باعث بنے۔ان فسادات کے باعث مس ورلڈ مقابلے کا انعقاد لندن میں ہوا جس میں ترکی کی عذرا اکن کو مس ورلڈ ٹھہرایا گیا۔
23 نومبر 2002 ء کو میر ظفر اللہ خان جمالی نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا۔
آج کےدن 2018 ء میں پاکستانی پولیس نے کراچی میں چینی قونصل خانے پرمسلح حملے کو پسپا کر دیا۔
23 نومبر 1983 ء کو اداکار وحید مراد کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
23 نومبر 2015 ء کو اردو کے مشہور شاعر اور ادیب جمیل الدین عالی انتقال کر گئے۔
23 نومبر 1978 ء کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا پاسپورٹ محکمہ امیگریشن، کراچی کے کوڑے دان سے برآمد ہوا۔