پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا فیصلہ: ازخود کارروائی کب کیا ہوا؟

بدھ 1 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ سنا دیا جس میں دونوں صوبوں میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس کیس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 8 فروری 2023 کو صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان فوری طور پر کیا جائے۔

صدر مملکت کے خطوط کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر نے اپنے خط میں کہا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں یہ صدر مملکت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں مگر آرٹیکل 105 کے تحت صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی صورت میں گورنر صوبے میں الیکشن کی تاریخ دینے اور نگران کابینہ مقرر کرنے کے مجاز ہیں۔

جس کے بعد 17 فروری کو صدر مملکت نے الیکشن کمشنر کو دوسرا خط لکھا جس میں ان کو مشاورت کے لیے دعوت دی گئی مگر الیکشن کمیشن نے معذرت کرلی تھی۔

اس دوران وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی صدر مملکت کی جانب سے الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط پر انہیں غیر آئینی کاموں سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔

مگر صدر مملکت نے ان تمام تر معاملات کے بعد 20 فروری کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد آئینی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور ملک میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ کیا صدر مملکت ایسا کوئی اعلان کرسکتے ہیں؟

22 فروری 2023

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 22 فروری کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا اور سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا۔

24 فروری 2023

24 تاریخ کی سماعت اس حوالے سے اہم رہی کہ اس میں دو بڑے واقعات ہوئے۔ پہلا یہ کہ بینچ کا حصہ ہونے والے جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس ازخود نوٹس پر اعتراض اٹھادیا جبکہ دوسرا اہم واقعہ یہ ہوا کہ جسٹس مندوخیل نے ہی ساتھی جج مظاہر اکبر نقوی کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کا ذکر کردیا۔

27 فروری 2023

27 فروری کو چار اراکین جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا جس کے بعد 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے مگر قانون کے مطابق صدر کو  الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔ یہ معاملہ اہم ہے اور دیکھنا ہوگا کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن سے کیا مشاورت کرتے ہیں اور گورنر بھی کس بنیاد اور مشاورت پر تاریخ مقرر کرسکتا ہے؟

28 فروری 2023

گزشتہ روز ہونے والی کارروائی میں سپریم کورٹ نے حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے کہا تھا کہ وہ مشاورت کے عمل کو اپناتے ہوئے انتخابات کی تاریخ کو طے کرلیں مگر پی ڈی ایم کی جانب سے مزید وقت مانگا گیا جس کے بعد پانچ رکنی بینچ نے ازخود نوٹس پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

یکم مارچ2023

سپریم کورٹ نے اس اہم ترین کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں عام انتخابات کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ نے  گزشتہ روزمحفوظ کیا گیا فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے سنایا۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندو خیل نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 184/3 کے مطابق یہ کیس قابل سماعت نہیں ہے، ازخود کیس نوٹس جلد بازی میں لیا گیا اور ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملے پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp