کشمیری صحافی فہد شاہ کی 600 روز بعد بالآخر ضمانت پر رہائی

جمعہ 24 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ممتاز کشمیری صحافی فہد شاہ کو 600 دن سے زائد قید کے بعد جموں کی کوٹ بھلوال جیل سے رہا کر دیا گیا ہے، عدالت نے ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ چلانے کے لیے ناکافی ثبوت کی بناء پر ضمانت دی تھی۔

34 سالہ فہد شاہ کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے جنوبی شہر جموں کی کوٹ بھلوال جیل سے جمعرات کو رہا کیا گیا ہے، فہد شاہ ایک آزاد نیوز پورٹل ’کشمیر والا‘ کے مالک اور ایڈیٹر ہیں، جس پر بھارتی حکومت نے رواں برس کے اوائل میں غیر اعلانیہ وجوہات کی بنا پر پابندی لگا دی تھی۔

پچھلے ہفتے اپنے ضمانتی حکم میں، جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائیکورٹ نے کہا کہ اس سال کے شروع میں قائم کردہ ایک خصوصی تحقیقاتی ایجنسی کے پاس غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت فہد شاہ کیخلاف الزامات ثابت کرنے کے لیے ثبوتوں کی کمی ہے۔

غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کو کئی انسانی حقوق کے گروپوں نے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ قانون کو بنیادی طور پر ہندوستان کی ہندو قوم پرست حکومت نے سیاسی مخالفین، کارکنوں اور منتشر افراد کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔

فہد شاہ پر کشمیر یونیورسٹی کے ایک فارمیسی کے طالب علم عبد الاعلٰی فاضلی کی ایک تحریر شائع کرنے پر ’دہشت گردی کی تعریف کرنے‘ اور ’جعلی خبریں پھیلانے‘ کے الزامات عائد کیے گئے، جس میں مبینہ طور پر ہندوستان کے ’قبضے‘ اور خطے کی آزادی کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ فہد شاہ کے ساتھ گرفتار ہونیوالے عبد الاعلٰی فاضلی ابھی تک جیل میں ہیں۔

عدالت کا کہنا ہے کہ مذکورہ تحریر میں مبینہ طور پر ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن اس کی اشاعت تشدد یا ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کو ہوا نہیں دیتی، عدالت نے فہد شاہ کیخلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت دہشت گردی کو فروغ دینے، ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے اور دشمنی کو فروغ دینے سمیت بعض الزامات کو مسترد کر دیا۔

عدالت نے تسلیم کیا کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت ضمانت کا حصول مشکل تھا، لیکن فہد شاہ کو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ اگر وہ رہا ہو جاتے ہیں تو وہ معاشرے کے لیے ’واضح اور موجود خطرہ‘ نہیں ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مرکزی حکومت پر کسی بھی قسم کی تنقید کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہندوستان کی عزت اس کی نظر نہ آنیوالی ملکیت ہے، اس نوعیت کا قانونی اطلاق آئین کے آرٹیکل 19 میں درج آزادی اظہار اور اظہار رائے کے بنیادی حق سے متصادم ہوجائے گا۔

فہد شاہ کو مذکورہ قانون یعنی یو اے پی اے کے دیگر سیکشن اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا، جو غیر قانونی فنڈز حاصل کرنے سے متعلق ہے۔

رواں برس اپریل میں ایک علاقائی عدالت کی جانب سے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت فہد شاہ کی نظربندی کو مسترد کرنے کے 7 ماہ بعد ضمانت یہ کہتے ہوئے دی گئی تھی کہ امن عامہ پر منفی اثر پڑنے کا اندیشہ نظر بند کرنیوالی اتھارٹی کا محض ایک قیاس ہے۔

فہد شاہ کو فروری 2022 میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ علاقے میں پولیس مقابلے کے بارے میں ان کے نیوز پورٹل پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ پر گرفتار کیا گیا تھا، پولیس نےکشمیری صحافی پر ’عوام میں خوف پیدا کرنے کے مجرمانہ ارادے سے تصاویر، ویڈیوز اور پوسٹس سمیت ملک مخالف مواد اپ لوڈ کرنے‘ کا الزام عائد کیا تھا۔

فہد شاہ کو 22 دن کے بعد قومی تحقیقاتی ایجنسی کی خصوصی عدالت نے ضمانت دی تھی، تاہم چند گھنٹے بعد انہیں 26 فروری کو فسادات کے لیے مبینہ طور پر اشتعال دلانے سے متعلق ایک اور کیس میں پھر گرفتار کرلیا گیا، 5 مارچ 2022 کو انہیں ضمانت مل گئی لیکن اس مرتبہ ایک اور مقدمے میں مبینہ طور پر فساد، قتل کی کوشش، اکسانے، ہتک آمیز مواد شائع کرنے، اور عوامی فساد پھیلانے کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

6 دن بعد، فہد شاہ پر خصوصی تحقیقاتی ایجنسی نے فہد شاہ اور عبدالاعلٰی فاضلی کیخلاف یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد کیے تھے، ایجنسی نے نیوز پورٹل ’کشمیر والا‘ پر 2011 میں شائع ہونے والے مضمون کو بنیاد بنا کر ان پر ’دہشت گردی کے بیانیے‘ کی ترتیب کا الزام لگایا، جسے ’انتہائی اشتعال انگیز اور باغیانہ قرار دیا گیا تھا۔

فہد شاہ اب تک 3 مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

20 اگست کو، بھارتی حکومت نے 2000 کے انفارمیشن ایکٹ کے تحت کشمیر والا اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک آن لائن رسائی کو بلاک کر دیا، پورٹل میں ایک درجن سے زیادہ صحافی اور فری لانسرز بطور معاون تھے، جس سے ان کا روزگار بھی متاثر ہوا۔

گرفتاری نے صحافیوں کو ہلا کر رکھ دیا

میڈیا واچ ڈاگ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے فہد شاہ کی ضمانت پر رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف تمام الزامات کو ختم کیا جائے اور ان کی ویب سائٹ پر پابندی کو منسوخ کیا جائے۔

کشمیر میں صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ آزادی صحافت کے خلاف بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کی وجہ سے خوف کے ماحول میں کام کر رہے ہیں، ایک صحافی کے بقول ’حراست میں لیے گئے صحافی کے حق میں ہائی کورٹ کے مضبوط فیصلے کے باوجود، فہد شاہ کو 2 سال جیل میں گزارنا پڑے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں کو کس قدر بے بس کر دیا گیا ہے،‘

’شاہ جیسی گرفتاریوں نے کشمیر میں صحافت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ ان کی گرفتاری نے صحافیوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ان میں سے اکثر نے لکھنا چھوڑ دیا۔‘

بھارت میں آزادی صحافت کی وکالت کرنے والی ایک آزاد تنظیم فری اسپیچ کلیکٹو کی بانی گیتا سیشو نے الجزیرہ کو بتایا کہ فہد شاہ کی متعدد مقدمات میں ’گھومنے والے دروازے‘ کی نوعیت کی گرفتاریاں ایک دھوکا تھا۔ ’مقدمات ڈیجیٹل میڈیا میں ایک آزاد آواز کو خاموش کرنے کی واضح کوشش تھی جب کشمیر میں پرنٹ میڈیا مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp