پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی سابق ریاست دیر اور 1994 تک دیر کے نام سے مشہور ضلع کو نوابوں کا مسکن کہا جاتا ہے۔ لواری ٹاپ سے چکدرہ پورٹ تک کے رقبے پر 3 صدیوں تک نوابوں کی حکمرانی رہی ہے، یہ ریاست 60 کی دہائی میں پاکستان میں ضم ہوئی تھی۔
سابق ضلع دیر اب 2 اضلاع میں تقسیم ہوگیا ہے لیکن دیر شہر اب ضلع اپر دیر کا ضلعی ہیڈکوارٹر ہے جو پشاور شہر سے تقریباً 213 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہے۔
دیر کی بہت سی سوغات اور مختلف اشیاء مشہور ہیں جن میں چاقو، چھریاں، وائٹ کیپ، دیسی پنیراور شہد بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں
اس کے علاوہ قدرتی حسن سے مالامال سیاحتی مقامات لواری ٹاپ اور وادی کمراٹ انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔
اس علاقے کے جنگلات اور پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے اخروٹ کے درختوں سے جہاں وافر مقدار میں اخروٹ حاصل ہوتے ہیں وہیں یہاں پر اخروٹ کی لکڑی سے بننے والا فرنیچر بھی اپنی مثال آپ ہے، جسے باہر کے ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔
اخروٹ کی لکڑی سے بنے فرنیچر کا کوئی مقابلہ نہیں، اکرام اللہ
دیر کی فرنیچر انڈسٹری سے وابستہ اکرام اللہ نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دیر کو اللہ تعالیٰ نے دیگرنعمتوں کے ساتھ ساتھ اخروٹ جیسے مضبوط درختوں سے نوازا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کا فرنیچرکے کاروبار سے روزگار وابستہ ہے۔
اکرام اللہ کے مطابق دیر کے اخروٹ کی لکڑی سے ہاتھ کی مدد سے بنائے گئے فرنیچر کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، یہ بہت مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے۔
اخروٹ کی لکڑی سے بنا فرنیچر دلکش اور خوبصورت ہوتا ہے
اکرام اللہ کے مطابق اخروٹ کی لکڑی سے بنا فرنیچرمضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ بہت دلکش اور خوبصورت ہوتا ہے، یہاں سادہ فرنیچر کے علاوہ آرڈر پر مختلف ڈیزائن بھی بنائے جاتے ہیں۔
مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ اخروٹ کی لکڑی سے بنائے گئے فرنیچر کو نہ صرف ملک بھر میں پسند کیا جاتا ہے بلکہ اس کی پائیداری کی وجہ سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک میں اسے برآمد بھی کیا جاتا ہے۔
’اخروٹ کی لکڑی سے بنائے گئے فرنیچر کے دام دوسرے فرنیچر سے کم ہوتے ہیں جبکہ یہ زیادہ پائیدار ہوتا ہے، اسی لیے لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور شادی بیاہ کے موقع سمیت گھروں اور دفاتر دونوں میں استعمال کے لیے خریدا جاتا ہے۔‘
دیر کی فرنیچر انڈسٹری میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں، حیدر علی
فرنیچر انڈسٹری کے کاروبار سے منسلک حیدر علی نے بتایا کہ دیر کی فرنیچر انڈسٹری سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
’دیر کے مقامی کاریگروں کے ساتھ ساتھ چنیوٹ اور کشمیر کے کاریگر بھی یہاں پر کام کرتے ہیں، یہ لوگ اخروٹ کے فرنیچر پر ڈیزائن بنا کر اس کی دلکشی میں مزید نکھار پیدا کرتے ہیں۔‘
حیدر علی کے بقول اخروٹ کے فرنیچر کی مختلف ورائٹی ہے، جن میں 30 ہزار روپے سے لے کر 4 سے 5 لاکھ روپے تک ڈبل بیڈ، سنگل بیڈ، صوفہ، الماری کا مکمل سیٹ دستیاب ہے۔
کم آمدن اور صاحب حیثیت دونوں کے لیے فرنیچر موجود ہوتا ہے
حیدر علی نے بتایا کہ ان کے پاس کم آمدن والے افراد اور صاحب حیثیت دونوں کے لیے شو رومز میں فرنیچر موجود ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ملک بھر سے اخروٹ کی لکڑی سے بنا فرنیچر خریدنے کے لیے دیر کی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔
’شادی بیاہ کی ضروریات کے علاوہ رشتہ داروں اور دوستوں کو تحائف دینے کے لیے بھی لوگ یہاں سے فرنیچر خریدنے آتے ہیں۔‘