غزہ جنگ کے شعلے عراق تک کیسے پہنچے؟

پیر 27 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

علی حسن الدراجی ان 9 جنگجوؤں میں شامل ہیں جو گزشتہ ہفتے عراق میں امریکی فوج کے حملے میں مارے گئے تھے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق عراق میں یہ پہلی اموات ہیں جن کا تعلق حماس اسرائیل جنگ سے ہے۔ غزہ میں حالیہ جنگ بندی کے باوجود عراقی جنگجوؤں اور امریکی فوج کے درمیان جھڑپوں میں شدت آئی ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی فوج نے عراقی جنگجوؤں پر متعدد حملے کیے جن کے بارے میں امریکا کا خیال ہے کہ وہ عراق اور شام میں اس کے فوجیوں اور تنصیبات پر حملوں کے ذمہ دار تھے۔ گارڈین نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فوج کے خلاف حملے اسلامی مزاحمت نامی تنظیم کے جنگجوؤں نے غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ حملوں کے رد عمل میں کیے ہیں۔

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنے فوجیوں کے تحفظ کے لیے جنگجوؤں پر حملوں کا قدم اٹھایا ہے۔ لیکن عراق کا الدراجی خاندان 2003 سے عراق میں امریکی فوج کے خلاف برسر پیکار ہے اور امریکا کو 2 دہائیاں گزرنے کے باوجود عراق کی خودمختاری پر حملہ آور اور غزہ جنگ کو مشرق وسطیٰ میں اس کی پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتا ہے۔

عراق میں امریکی فوج قبول نہیں

32 سالہ علی حسن الدراجی کے چچا ذوالفقار الدراجی کا کہنا ہے کہ لوگ عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی نہیں چاہتے کیونکہ امریکی فوج عراق کی تباہی کی ذمہ دار ہے، علی الدراجی اس خاندان کا 7 واں فرد ہے جسے امریکی فوج نے مارا، غزہ میں ملبے تلے دب کر شہید ہونے والے بچوں کی تصاویر دیکھ کر دردناک یاد تازہ ہوجاتی ہے اور امریکا کے خلاف غم و غصہ پھر سے جاگ جاتا ہے۔

ذولفقار الدراجی نے مزید کہا کہ غزہ میں بچوں کے قتل کا ذمہ دار امریکا ہے، صرف جنگجو تنظیمیں ہی نہیں بلکہ تمام عراقی عوام غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں، جب بھی کہیں جنگ ہوتی ہے ہم ایک ہوجاتے ہیں۔

 واضح رہے کہ عراق نے ہمیشہ فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے۔ جب 26 اکتوبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ میں زمینی آپریشن کا آغاز کیا تو عراقی دارالحکومت بغداد کی مساجد میں اجتماعی دعائیں کی گئیں اور چند مساجد میں امریکی فوج پر حملوں کی حمایت بھی کی گئی۔

عراقی حکومت دباؤ کا شکار کیوں؟

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد عراقی جنگجو تنظیموں اور عوام میں اسرائیل اور امریکا کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے جس سے عراقی حکومت شدید پریشانی کا شکار ہے اور اس پر دباؤ ہے کہ وہ امریکی فوج کے عراق سے انخلا سے متعلق بات چیت کا آغاز کرے۔

عراقی حکومت نے امریکی فوج کے خلاف کتائب حزب اللہ جیسی تنظیموں کے حمے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی ہے مگر جمعرات کو علی الدراجی کی نماز جنازہ کے بعد عراقی حکام کو امریکی فوج پر ایک نئے حملے کی اطلاع ملی ہے۔

’حملے جاری رکھیں گے‘

کتائب حزب اللہ نے اپنے جاری کردہ حالیہ بیان میں غزہ میں جنگ بندی تک امریکی فوج پر حملوں میں کمی کا اعلان کیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ عراق کی مکمل آزادی تک ’قابض‘ فوج کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔

یاد رہے کہ حماس اسرائیل جنگ کے بعد عراق میں تعینات امریکی فوج اور امریکی تنصیبات پر حملوں میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ جنگ کے آغاز سے اب تک امریکی فوج پر سینکڑوں حملے کیے جاچکے ہیں جن میں کئی امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp