ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے سیاسی گہماگہمی اپنے عروج پر ہے اور مرکزی سطح کی حامل سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف انتخابی سرگرمیوں میں مشغول دکھائی دیتی ہیں۔
حال ہی میں بلوچستان کا رُخ کرنے والے بڑے سیاسی کھلاڑیوں نے بھی آئندہ انتخابات کے لیے بلوچستان سے اپنی اپنی ٹیمیں تشکیل دینی شروع کر دی ہیں، جبکہ دیگر جماعتوں سے بھی انتخابی اتحاد و ایڈجسٹمنٹ کی کوششیں جاری ہیں، تاہم اس تمام صورتحال میں سال 2018 کے انتخابات جیتنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
9 مئی واقعات نے پی ٹی آئی کو بھاری نقصان پہنچایا
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق 9 مئی 2023 کو پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات نے پی ٹی آئی کی سیاست کو بھاری نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے یکے بعد دیگرے پی ٹی آئی کے اہم کھلاڑی نہ صرف اپنی جماعت سے علیحدہ ہوئے بلکہ بیشتر سیاسی رہنماؤں نے تو سیاست ہی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں
ایسے میں بلوچستان سے بھی پاکستان تحریک انصاف کی بڑی وکٹیں گریں جن میں کوئٹہ کے شہری حلقے سے منتخب ہونے والے سابق ایم پی اے مبین خلجی بھی شامل ہیں، جنہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کیا۔
اس کے علاوہ نعمت اللہ زہری بھی پی ٹی آئی سے دامن چھڑا کر پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے۔ مخصوص نشست پر ایم پی اے منتخب ہونے والی فریدہ بی بی نے بھی تحریک انصاف سے راہیں جدا کر لیں۔
پارٹی کے سینیئر اور صوبے کے بزرگ سیاستدان سردار یار محمد رند تو 9 مئی کے واقعات سے قبل ہی پارٹی چھوڑ گئے تھے اور انہوں نے اب تک کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں کیا ہے لیکن سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سردار یار محمد رند ضرور کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔
منظر سے غائب قاسم سوری
سال 2018 میں بلوچستان سے پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 3 نشستیں بھی حاصل کی تھیں۔ ان نشتوں میں سے ایک پر جیتنے والے قاسم سوری بھی تھے جو پارٹی کے خاصے سرگرم رہنما رہے لیکن وہ بھی 9 مئی کے بعد سے منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی منورہ منیر اور خان محمد جمالی بھی پارٹی معاملات سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔
بلوچستان سے پی ٹی آئی کا وائٹ واش
سیاسی تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پہلے بھی صوبے میں اس طرح سے مقبول نہیں تھی جس طرح سے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں رہی تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان سے مکمل طورپر وائٹ واش ہو چکی ہے اور آئندہ انتخابات میں صوبے یا قومی سطح پر بمشکل ہی کوئی نشست حاصل کر پائے گی۔
پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں
پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے ایک رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے باعث ملک بھر میں پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں لیکن اب بھی بلوچستان سے 100سے زائد سیاسی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جیل سے رہا ہوتے ہیں تو سیاسی سرگرمیاں ایک بار پھر شروع ہوجائیں گی۔
پارٹی ٹکٹ کا معاملہ
انہوں نے بتایا کہ پارٹی ٹکٹ کا معاملہ پہلے صوبائی سطح پر اور پھر قومی سطح پر طے کیا جائے گا، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پورے ملک میں ایک مقبول ترین جماعت کے طورپر سامنے آئی ہے اور آئندہ انتخابات میں اگر لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جاتی ہے اور صاف و شفاف انتخابات کرائے جاتے ہیں تو پھر پاکستان تحریک انصاف ہی ملک بھر کی مقبول ترین جماعت ہو گی۔